مولانا مودودی کے لٹریچر ہڑھنے کا رجحان کم نہیں ہوا،کتب ڈیجیٹلائز کرنے کی ضرورت ہے

371

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں میں مجموعی طور پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا لٹریچر پڑھنے کا رجحان کم نہیں ہوا البتہ معاشرے میں مطالعہ کا شوق عمومی طور پر کم ہوا ہے اس لیے اس کے اثرات جماعت اور جمعیت کے لوگوں پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں جس کے ازالے کے لیے ضروری ہے کہ مولانا کی کتب کو ڈیجٹلائز کر کے سوشل میڈیا پر پیش کیا جائے تاکہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ استفادہ کے مواقع مل سکیں۔ ان خیالات کا اظہار نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ، ممتاز کالم نگار اور ٹی وی تجزیہ نگار سجاد میر اور ممتاز ماہر اقبالیات پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا کہ جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ میں مولانا مودودیؒ کا لٹریچر پڑھنے والے کم کیوں ہو گئے ہیں۔ نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان اور سابق رکن قومی اسمبلی لیاقت بلوچ نے ’’جسارت‘‘ کے استفسار پر موقف اختیار کیا کہ یہ ایک عمومی تاثر پایا جاتا ہے یا اس کو پھیلایا جاتا ہے کہ جماعت اور جمعیت میں مولا نا مودودیؒ کا لٹریچر پڑھنے کا رجحان کم ہو رہا ہے لیکن عملی حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی میں آج بھی وہی نظام جاری ہے اورکارکن کو رکن بنانے کے لیے اس نصاب کا مطالعہ کرایا جاتا ہے جو مولانا کی زندگی سے طے شدہ ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ میں کارکنوں کے اسٹڈی سرکلر اور اجتماعی مطالعہ یعنی لٹریچر پڑھانے کی طرف بھر پور توجہ دی جاتی ہے، البتہ یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہو سکتی ہے کہ معاشرے میں سوشل میڈیا کے اثرات اور لوگوں کی مصروفیات میں تبدیلی کے سبب مجموعی طور پر کتاب کی طرف رجحان اور مطالعہ کی عادات میں کمی آئی ہے، چنانچہ یہ اپنی جگہ ہمارے لیے ایک چیلنج ہے کہ مولانا کے لٹریچر کو ڈیجیٹلائز کر کے اس طرح پیش کیا جائے کہ لوگوں کو مطالعہ کے زیادہ سے زیادہ مواقع مل سکیں ممتاز کالم نویس تجزیہ نگار اور ٹی وی میزبان سجاد میر نے ’’جسارت‘‘ کے سوال پر بتایا کہ جماعت اور جمعیت کے لوگوں میں مطالعہ کم ہونے کی وجہ یہ تو نہیں کہ مولانا کا لٹریچر غیر متعلق(Inreleumt) ہو گیا البتہ یہ ضرور ہے کہ معاشرے کے طور اطوار اور ذوق و شوق تبدیل ہو گئے ہیں ایک وقت تھا جب مذہب اور لادینیت اور ترقی پسندی کی بحث معاشرے کا موضوع تھی تو لوگ مذہب کے متعلق سوچتے اور پڑھتے تھے اب بھی دین کے داعیوں کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو مذہب کی طرف متوجہ کریںجب اسلامی نظام، مذہب اور کلچر کے مطالعہ کی بات ہو گی تو مولانا مودودیؒ کی کتب سے بہتر کوئی چیز نہیں جو عام آدمی کی دین کی طرف رہنمائی کر سکے اور ان کو مطمئن کر سکے۔ سوشل میڈیا نے بھی مطالعہ کے شوق کو متاثر کیا ہے، دین سے محبت کرنے والوں نے دینی لٹریچر کو انٹرنیٹ کے ذریعے عام کرنے کی کوشش کی تو ہے مگر ابھی اس جانب مزید کام اور محنت کی ضرورت ہے ممتاز ماہر اقبالیات پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے ’’جسارت‘‘ کے استفسار پر کہا کہ یہ صرف مولانا مودودیؒ ہی کا معاملہ نہیں بلکہ دیگر لوگوں کی کتب کے مطالعہ کا بھی یہی حال ہے دراصل بحیثیت مجموعی پڑھنے اور مطالعہ کرنے والے کم ہوتے ہیں تاہم جماعت اسلامی اور جمعیت طلبہ کے کارکنوں کو چاہیے تھا کہ اور کچھ پڑھیں نہ پڑھیں، مولانا مودودیؒ کی کتب کا مطالعہ ضرور کریں اس صورت حال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ نئی چیزوں موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا وغیرہ میں الجھ گئے ہیں، مولانا کے قدر دان اس جانب بھی متوجہ ہوئے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ انٹرنیٹ پر مولانا کی تمام کتب دستیاب ہوں لیکن بہر حال اس کے لیے ابھی مزید محنت کی ضرورت ہے مطالعہ میں کمی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ عام آدمی کی مصروفیات اور ترجیحات مختلف ہو گئی ہیں، اب زندگی میں چونکہ سادگی نہیں رہی بلکہ مصنوعی پن، بناوٹ اور نماش کا پہلو غالب آ چکا ہے پہلے قناعت سے سادہ زندگی گزر جاتی تھی اب دائیں بائیں آسائشیں اور تعیشات دیکھ کر ہر آدمی زیادہ سے زیادہ کام اور تگ و دو کے ذریعے اپنی آمدن بڑھانے کے لیے کوشاں ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ سہولتیں اپنے بچوں کو مہیا کر سکے، تعلیم کا معاملہ بھی یہی ہے پہلے سرکاری اسکولوں میں تعلیم سستی تھی، ٹیوشن کا رجحان نہیں تھا اب نجی اسکولوں میں معیار تعلیم کے لیے بھاری فیس ادا کرنے کے لیے وسائل کی فراہمی کے لیے صبح سے شام تک محنت کرنا پڑتی ہے اور مطالعہ کا وقت ہے نہ توجہ ۔ پہلے لوگ صبح سویرے اٹھ کر نماز مطالعہ قرآن و حدیث کے بعد خود بھی دینی کتب پڑھتے تھے اور بچوں کو بھی پڑھاتے تھے اب یہ بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔