بوڑھے پنشنروں کی سنو وہ تمہا ری سنے گا

222

جرائم کے حوالے سے پاکستان کی جو تاریخ لکھی جائے گی اس میں نواز شریف کو ہر صورت میں مجر م اوّل ٹھہرایا جائے گا کیونکہ پاکستان کا یہ وہ واحد حکمران ہے جس نے تین بار اقتدار کی کرسی کا مزا چکھا اور اس تمام عرصے میں پاکستان میں لوٹ مار کا جو بازار گرم کیا وہ اس ملک کے لیے ایک بڑے سانحے سے کم نہیں ہے جس کے باعث آج پاکستان اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزررہا ہے۔ ملک کی عوام مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں ان تمام حالات کا ذمہ دار نواز شریف اس کا بھائی اور اولادوں کے ساتھ ساتھ بے شمار ایسے لوگ ہیں جو مختلف طریقوں سے اس لوٹ مار کا حصہ بنے لیکن یہ چالیں چوروں کا ٹولہ احتساب بیورو کے راڈار کی زد میں نہیں آسکا پاکستان کے تمام اداروں کو کرپشن کی دلدل میں دھکیل دیا گیا جس کی وجہ سے ملک کی ترقی کا عمل بری طرح متا ثر ہوا۔ ان تمام خراب حالات کا سامنہ کرنا ایک مشکل ترین کام ہے اور یہ کام ملک کا وزیراعظم عمران خا ن احسن طور پر کرنے کے سلسلے میں رات دن مصروف ہیں۔ سالہا سال کے گند کو صاف کرنے میں وقت تو لگے گا لیکن ا نشا اللہ حالات بہتری کی طرف ضرور آئیں گے۔ شکستہ حال اپوزیشن ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح اپنے الٹے سیدھے ہاتھ ضرور ماررہی ہے صرف اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے اور ملک میں افراتفری کی فضا پیداکرنے کے لیے تاکہ اپوزیشن کے ون پوائنٹ ایجنڈے یعنی پارٹی کے بڑوں کی لوٹی ہوئی دولت کو بچایا جاسکے۔
ملک کے وزیراعظم اپوزیشن کے تمام اوچھے ہتھکنڈوں سے خوفزدہ ہونے کے بجائے اپنی تمام تر توجہ ملک کی معیشت کو بہتر سے بہتر کرنے اور عوام کے مسائل کو حل کرنے کی جانب مبذول کیے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم کی ہدایت پر قائم کیے گئے پورٹل کے ذریعے عوامی شکایات اور مسائل کو حل کرنے کے لیے بڑی مستعد ی سے کام ہورہاہے۔ وزیراعظم نے بزرگ شہریوں کے حوالے سے خصوصی ہدایات جاری کررکھی ہیں کہ ان کے مسائل کو ترجیمی بنیاد پر حل کرنے کی کوشش کی جائے نواز شریف کے خلاف جو کچھ ہورہاہے، وہ یقینا قوم اور ملک کے مفاد میں ہے لیکن وہ لوگ جو نوازشریف کی چھتری تلے رہتے ہوئے ملک میں کرپشن اور لوٹ مار میں کسی نہ کسی طرح حصہ دار بنے ان کے خلاف ہمارا احتساب کا نظام کیوں حرکت میں نہیں آرہا احتساب کے حوالے سے وزیراعظم کے مشیر نوازشریف کی چوریوں کو ان کی بے نامی جائیداد کے بارے
میں پوری طرح کھوج لگانے میں مصروف ہیں لیکن نوازشریف نے الائیڈ بینک کی نجکاری میں جو معاملات غلط طریقے سے استعمال کیے گئے ان کی تحقیقات کرنا بھی نہایت ضروری ہے جن سیٹھوں نے بینک کو اونے پونے داموں خریدا ان کی پکڑہونابھی ضروری ہے اور پھریہی نہیں بلکہ بینک نے ملازمین کا معاشی ا ستحصال کرنے کے لیے خلاف قانون جو قواعد وضوابط اختیار کیے وہ بینک کے بوڑھے پنشنروں کے ساتھ کیا گیا ایک بہت بڑا معا شی ظلم ہے پوری دنیا گھوم لیں یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ کوئی بھی ادارہ ہو اپنے ریٹائر ہونے والے ملازم کو ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے ریٹائرمنٹ کے فوائد کی ادائیگی کر تا ہے لیکن الائیڈ بینک نے اس قانون کو تبدیل کرتے ہوئے یہ قاعدہ اپنایا کہ جو بھی ملازم 30جون 2002کے بعد ریٹائرمنٹ اختیار کرے گا اسے ریٹائرمنٹ کے فوائد اس ملازم کی 30 جون 2002کی تنخواہ کے مطابق ادا کیے جائیں گے جو ریٹائرڈ ملازمین کے ساتھ ایک بڑے ظلم کے مترادف ہے اس ظلم کے خلاف پشاور کے 22 پنشنروں نے محمد ظفر کی قیادت میں قانونی جنگ 2010-2011میں شروع کی اور پشاور ہائی کورٹ نے پنشنروں کے حق میں واضح الفاظ میں یہ فیصلہ دیا کہ پنشنروں کی استدعا بالکل درست ہے ریٹائرڈ ملازمین کو ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے حساب کتاب ملنا چاہیے۔ بینک کو پشاور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ پسند نہیں آیا نہ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اس لیے وہ سپریم کورٹ جا پہنچے لیکن سپریم کورٹ نے بھی پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے اسے ایک در ست فیصلہ قرار دیا لیکن بینک کو اپنی دولت کا اتنا گھمنڈہے کہ وہ عدالتوں کے فیصلوں کو خاطر میں لانا اپنی توہین سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ عد ا لت عا لیہ کے وا ضح فیصلوں کی با ر بار تو ہین عد الت کے مر تکب ہو رہے ہیں۔
بینک کی جانب سے کی گئی تما م اپیلیں ہر عدالت سے مسترد کی جا چکی ہیں لیکن عدالتی فیصلے اور سول کورٹ کی جانب سے 22 پنشنروں کو پنشنروں کو تمام واجبات اداکرنے کا حکم د یاجا چکا ہے لیکن بینک پنشنروں کے مقابلے میں بینک قانونی جنگ مکمل طور پر ہارچکا ہے۔ اب بینک کئی مہینوں سے تاخیری حربے استعمال کرتے ہوئے پنشنروں کو پریشان کرنے میں مصروف ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بینک کو ہر صورت میں پنشنروں کو ان کا قانونی حق اداکرنا ہو گا۔ وزیر اعظم صاحب اور چیف جسٹس صاحب کو عدالتی فیصلے کا احترام نہ کرنے پر بینک کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے اور بینک پنشنر وں کو ان کا جا ئز حق ان کی ز ند گی میںمل جا نے کو یقینی بنا نا چاہئے۔