اپوا کا احسن اقدام… رابطہ آفس کا قیام

721

جب ای او بی آئی ہی نان نفقہ بنا تو شکر بجا لائے کہ کچھ نہ ہونے سے ہونا ہی بہتر ہے۔ چونکہ ہمارا تعلق کاغذ قلم سے ہے چنانچہ تحقیق کے بعد ایک مضمون لکھ ڈالا جو کہ روزنامہ جسارت کے محنت کش صفحے کی زینت بنا۔ خلاف توقع ہمیں بہت پذیرائی ملی اور بہت سے افراد نے رابطہ کیا، ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو پنشنرز کے لیے فلاحی تنظیمیں چلا رہے تھے اور چاہتے تھے کہ ہم ان کے شریک کار بن جائیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ لوگ ہمت ہارتے گئے۔ مگر متین خان مسلسل اسرار کرتے رہے کہ ہم ان سے اور ان کے ساتھیوں سے ایک ملاقات کرلیں، پھر ان کی جانب سے ایک دعوت نامہ موصول ہوا کہ گلستان جوہر میں ہماری ایک مشاورتی میٹنگ ہے اگر شرکت کریں تو تمام احباب سے ملاقات ہوجائے گی۔ پھر جب ہم ان کے بتائے گئے مقام پر پہنچے تو ایک باوقار شخصیت نے ہمارا استقبال کیا اور گویا ہوئے۔ اختر بھوپالی: میں نے اثبات میں سر ہلایا تو ہاتھ پکڑتے ہوئے بولے میں اظفر شمیم اور پھر ہمیں اپنے ہمراہ بیٹھک میں لے گئے جہاں مرکزی نشست پر ایک بھاری بھرکم مگر خوش شکل شخصیت دراز تھے۔ یہ قاضی عبدالجبار ہیں، ان کے برابر میں ایک اور باادب شخصیت علمدار رضا کی تھی اور ایک کونے میں ہنستے مسکراتے متین خان کے علاوہ بھی کچھ شخصیات موجود تھیں۔ پھر باتوں کا سلسلہ چل نکلا تو ہم حیران رہ گئے کہ یہ لوگ خود بوڑھے ہو کر دوسرے بڈھے گھوڑوں کی فلاح کے لیے جمع ہوئے ہیں اور پھر کچھ ہی دیر بعد ہم بھی ان کے ہم خیال ہوگئے۔ تنظیم کے جنرل سیکرٹری علمدار رضا نے بتایا کہ تنظیم کی رجسٹریشن کی کوشش جاری ہے اور ہم جلد ہی یہ ہدف حاصل کرلیں گے، اس طرح ہمیں نہ صرف قانونی تحفظ حاصل ہوگا بلکہ ای او بی آئی پنشنرز کی نمائندگی کا حق بھی حاصل ہوجائے گا اور جلد ہی وہ دن بھی آگیا جب ہمیں مطلع کیا گیا کہ تنظیم کی رجسٹریشن ہوچکی ہے۔ اس سلسلے میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے اور آپ کی شرکت ضروری ہے آپ کو مجلس عاملہ کی رکنیت دی جارہی ہے۔ ہمارے لیے یہ بات باعث اعزاز تھی۔ چناں چہ ہم مقررہ جگہ پر کچھ تاخیر سے پہنچے، یہ غالباً شمس زبیری صاحب کی رہائش گاہ تھی۔ پروگرام شروع ہوچکا تھا تنظیم کے صدر قاضی عبدالجبار خطاب کررہے تھے۔ تنظیم کے سرپرست و چیئرمین اظفر شمیم نے رجسٹریشن
کے سلسلے میں محنت اور تعاون کرنے پر عملدار رضا اور عبدالحمید ہارون کی خدمات کو سراہا۔ تنظیم کے جنرل سیکرٹری علمدار رضا نے اعلان کیا کہ اب ہمارا اگلا مشن رابطہ آفس کا قیام ہے کیونکہ اب تک ہونے والے اجلاس کسی نہ کسی عہدیدار کے گھر پر منعقد ہوا کرتے تھے اور امید ہے ہمارا اگلا پروگرام رابطہ آفس میں ہی ہوگا۔ بجٹ آیا اور چلا گیا سرکاری خزانے سے فائدہ اٹھانے والے سرکاری پنشنرز کی پنشن میں تو اضافہ کردیا گیا مگر غیر سرکاری پنشنرز یعنی ای او بی آئی کے پنشنرز نظر انداز کردیے گئے۔ ایسے میں ضرورت تھی مشاورت کی تو علمدار رضا کی طرف سے دعوت نامہ ملا کہ نمبر68رضویہ مارکیٹ گولیمار چورنگی ناظم آباد میں رابطہ آفس کا قیام عمل میں آیا ہے، شرکت کی درخواست ہے۔ رابطہ آفس مرکزی مقام پر تھا جس کو تلاش کرنے میں کوئی دشواری نہ آئی۔ جب ہم ہال میں پہنچے تو تقریباً تمام ہی نشستیں پُر تھیں۔ ہم بھی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ علمدار رضا کا خطاب جاری تھا جو اطلاع دے رہے تھے کہ ہمارے چیئرمین اظفر شمیم پنشن میں اضافے اور ہیلتھ کارڈ کے حصول کے لیے اسلام آباد میں تشریف رکھتے ہیں۔ صدر بھی چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر نہیں آسکے اور متین
خان کی طبیعت ویکسی نیشن کی وجہ سے خراب ہے، ایسے میں ساری ذمہ داری علمدار رضا پر آگئی ہے۔ اس موقع پر نائب صدر شمس زبیری نے بھرپور ساتھ دیا اور اسٹیج کو سنبھالے رکھا۔ شمس زبیری نے کہا کہ اب ہماری رجسٹریشن ہوچکی ہے، ہم EOBI کے حکام سے بات کرسکتے ہیں۔ ہم ان سے آڈٹ کی بھی ڈیمانڈ کریں گے۔ میں خود بینکر ہوں مجھے پتا ہے کہ انڈر ٹیبل کیا ڈیل ہوتی ہے۔ تین سو پچاس ارب روپے کا امائونٹ ہے۔ EOBI اپنا بینک بنائے خود انوسٹ کرے تا کہ منافع پنشرز ہی کو ملے۔ جب ملک ریاض بحریہ ٹائون کے معاملات کو چلانے کے لیے بینک کھول سکتا ہے تو EOBI اپنا بینک کیوں نہیں کھول سکتی۔ ہم سہارا انشورنس کو بھی فعال کرنے کی کوشش کریں گے۔ اسی دوران اسلام آباد سے اظفر شمیم کی کال آگئی، شرکاء مجلس نے کھڑے ہو کر ان کا خطاب سنا۔ فرمارہے تھے کہ پنشن میں اضافے اور ہیلتھ کارڈ کے سلسلے میں مختلف حکام سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے اور کافی کام ہوچکا ہے، ان شاء اللہ جلد بڑی خوشخبری سنیں گے۔ آخری وقت میں متین خان بھی بیماری کے باوجود تشریف لائے۔ انہوں نے کہا کہ اب ہم تظیم کا بینک اکائونٹ کھولنے جارہے ہیں اور جلد ہی ممبر شپ فارم کو آن لائن کرایا جائے گا۔ انہوں نے کامیاب میٹنگ کے انعقاد پر علمدار رضا کو مبارکباد دی اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔