مذہبی تعلیمات پر عمل کرنا یقینی طور پر نفسیاتی اور ذہنی آسودگی کا سبب بنتا ہے

235

کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی) اسلام انسانیت کو فلاح کی طرف بلاتااور ذہنی امراض سے نجات کی مکمل ضمانت دیتا ہے‘ جملہ امراض سے نجات جسم اور روح کی شفاو بخشش اسوہ رسول کے بغیر ممکن نہیں‘ مذہب کے اثرات انسان کی عزت نفس میں اضافے کا سبب بنتے ہیں‘ شدید نفسیاتی یا جذباتی کشمکش کا شکار انسان مذہبی ذکر و اذکارسے سکون پاتا ہے‘ انسان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق جتنا اچھا، مضبوط اور قریبی ہوگا‘ اتنا ہی انسان کا نفسیاتی نظام اچھا اور مضبوط ہو گا‘ اسلام نے جو ہدایات دی ہیں ان پر عمل پیرا ہوکر انسان نفسیاتی امراض سے بچ سکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز عالم دین اور جامعہ بنوریہ کے مہتمم مفتی نعمان نعیم، جامعہ کراچی شعبہ نفسیات کی پروفیسر ڈاکٹر انیلا امبر ملک اور معروف محقق حسیب احمد حسیب نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا مذہب نفسیاتی امراض پر قابو پانے میں انسان کی مدد کرتا ہے؟‘‘ مفتی نعمان نعیم نے کہا کہ یہ دور حاضر کا انتہائی حساس موضوع ہے‘ نفسیات کا تعلق انسانی سوچ، تفکر، عادات و اطوار اور کردار سے ہوتا ہے‘ نفسیات کا علم چند ایسی انسانی خصلتوں و جبلتوں کی نشاندہی کرتا ہے جو انسانی شخصیت میں بگاڑ کا باعث بنتی ہیں‘ مستقبل میں ذہنی خرابیوں اور نفسیاتی امراض کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کرتی ہیں مثلًا بغض، حسد، کینہ، غصہ، غیبت، بہتان تراشی، جاسوسی اور شیطانی وسواسات شخصیت میں منفی اثرات پیدا کرکے نفسیاتی امراض کا پیش خیمہ بنتے ہیں‘ دین اسلام نے جہاں ایسی خرابیوں کی نشاندہی کی وہاں کچھ ایسی ہدایات بھی دیں جن پر عمل پیرا ہوکر انسان ان نفسیاتی بیماریوں سے بچ سکتا ہے‘ ایک زمانہ تھا جب خاندانی جھگڑوں یا گھریلو مسائل کی وجہ سے لوگ نفسیاتی امراض کا شکار ہوتے تھے لیکن آج کے بچے بھی تعلیم اور بہترین کارکردگی دکھلانے کی توقعات کے تناطر میں ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں‘ ساتھ ہی پیشہ ورانہ رقابت، گھریلوجھگڑے،بے سکونی اور امن عامہ جیسی صورت حال انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ مفتی نعمان نعیم کا کہنا تھاکہ انسان اگر روحانیت کی طرف توجہ دے اور اللہ کی طرف زیادہ سے زیادہ لو لگائے تو یہ ڈپریشن اور اینگزائٹی جیسی کیفیات کا علاج ہے‘ قرآن نے واضح الفاظ میں یہ اعلان کردیا ہے کہ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب، اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون پہنچتا ہے اور انسانوں کے تمام جملہ امراض سے نجات، جسم اور روح کی شفا وبخشش اسوہ رسول کے بغیر ممکن ہی نہیں‘ جسمانی صحت و توانائی ذہنی طہارت و لطافت روحانی بالیدگی و پاکیزگی، ارادوں اور نیتوں کی اصلاح اور کردار کی عظمت و بلندی اسوہ حسنہ کے لازمی ثمرات ہیں جن کی ہر زمانہ میں ضرورت رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی‘ آج افراط و تفریط کے دور میں نفسیاتی امراض بڑھ رہے ہیں اور پورا معاشرہ ان کی لپیٹ میں ہے‘ ایسے نازک حالات میں صرف دین اسلام ہی وہ حیات بخش نظریہ ہے جو انسانیت کے ہر قسم کے مسائل و مشکلات کا شافی و کافی حل پیش کرتا ہے اور روحانی انقلاب کے ذریعے فلاح انسانیت بالخصوص ذہنی امراضکی مکمل ضمانت دیتا ہے۔ ڈاکٹر انیلا امبر ملک نے کہا کہ بنیادی طور پر بندے کے 2 بڑے تعلق ہوتے ہیں‘ ایک بندے کا بندے سے اور دوسرا بندے کا اللہ سے تعلق ہوتا ہے‘ یہ دونوں تعلق جتنے اچھے، مضبوط اور قریبی ہوں گے‘ اتنا ہی انسان کا نفسیاتی نظام اچھا اور مضبوط ہو گا‘ مذہب سے لگائو اور مذہبی تعلیمات پر عمل کرنا یقینی طور نفسیاتی اور ذہنی آسودگی کا سبب بنتا ہے‘ انسانی تجربہ ہے کہ جب وہ کسی شدید نفسیاتی یا جذباتی کشمکش کا شکار ہوتا ہے تو مذہبی ذکر وازکار ایسی کیفیت سے نکالنے میں مدد دیتی ہیں۔ انہوں نے بین الاقوامی سطح پر کیے جانے والے متعدد تحقیقی مقالاجات اور رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ بات اب تسلیم اور طے شدہ ہے کہ مذہب کے اثرات انسان کی عزت نفس میں اضافے کا سبب بنتے ہیں‘ اس کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیمات انسان کی نفسیات پر انتہائی مثبت اثر ڈالتے ہوئے اس کو ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے اور نفس مطمئنہ فراہم کرتی ہیں جس کے نتیجے میں وہ کسی بھی حالت میں نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا نہیں ہوتا ان کا مزید کہنا تھا کہ مذہی تعلیم حاصل کرنے اور اس کی بنیاد پر تربیت پانے والے انسان نفسیاتی امراض سے بڑی حد تک بچے رہتے ہیں‘ اس کے ساتھ ان انسانوں میں نفسیاتی امراض سے بچنے کے بڑے امکانات ہوتے ہیں جو مذہبی ماحول میں اپنا وقت گز ارتے ہیں۔ انیلا امبر کا مزید کہنا تھا کہ مذہب نہ صرف ان نفسیاتی امراض سے بچاتا ہے بلکہ نفسیاتی مریضوں کو اس سے نکلنے میں بھی مدد دیتا ہے یعنی مذہب نفسیاتی امراض کے لیے پرہیز اور دوا دونوں کا کام انجام دیتا ہے‘ دیکھا یہ گیا ہے کہ نفسیاتی امراض میں مبتلا جن افراد کو عام ادویات کے ساتھ مذہب کے قریب کیا گیا‘ وہ عام مریضوں سے قبل ٹھیک ہوئے اور ان میں سے جو مذہب پر عمل پیرا رہے ‘ ان میں سے بیشتر دوبارہ کسی قسم کے نفسیاتی مرض میں مبتلا نہ ہوئے‘ انہوں نے مذہبی تعلیمات پر عمل کرنے والے افراد کے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہونے کے امکانات کم ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ مذہب صرف مجموعہ عبادات نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی گزرانے کا اسلوب بتاتا ہے‘ طرز معاشرت اور اخلاقیات کا بھی تعین کرتا ہے یہ تمام چیزیں ایک مکمل صحت مند زندگی کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ حسیب احمد حسیب کا کہنا تھا کہ دنیا کی معلوم تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اس دنیا کی سادہ اکثریت ہمیشہ مذہب کی زلف گرہ گیر کی اسیر رہی ہے‘ لوگ مذہبی تھے‘ لوگ مذہبی ہیں اور آثار و قرائن یہ بتاتے ہیں کہ لوگ مذہبی رہیں گے‘ مذہب فطرت انسانی کا خاصا ہے اس سے دور ہٹنا انتہائی مشکل امر ہے کیونکہ اپنی فطرت سے دور ہٹنا کسی طور ممکن نہیں‘ انسانی عقل اس کا شعور چیزوں سے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت فیصلہ کرنے کی طاقت بہر حال اس کی فطرت سلیمہ کے ماتحت ہے اور فطرت سلیمہ کبھی غلط راستے کی جانب راغب نہیں کرتی یہاں اس بات کا اظہار کر دینا بھی بے جا نہیں ہوگا کہ مذہب خالص فطرت سلیمہ کو اپنی جانب راغب کرنے کا مدعی ہے بلکہ اس کا دعویٰ ہے کہ اس کے مخاطب تو ہیں ہی صاحبان علم و عقل‘ ان کا کہنا تھاکہ مذہب انسانی نفسیات پر نہایت مثبت اثرا ت ڈالتا اور نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہونے سے روکتا ہے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ نوع انسانی بحیثیت مجموعی خدا کے تصور کی قائل رہی ہے‘ پھر جب انسانی نفسیات اور اس کے سوچنے کے فطری انداز سے واقفیت ہوئی تو یہ بات آشکار ہوئی کہ انسان عافیت پسند ہے‘ آسانی کی طرف بھاگتا ہے‘ کائنات کے عظیم الشان حقائق اسے اگر آسان اور سادہ انداز میں سمجھا دیے جائیں تو اس کا دماغ انہیں آسانی سے جذب کر لیتا ہے‘ اس کے برعکس مذہب سے دور انسان کا المیہ یہ ہے کہ اس نے اپنی کامیابی کا واحد راستہ مذہب اور خدا سے مکمل چھٹکارا حاصل کر لینے میں سمجھا جس کی وجہ سے ایک بہت خلا پیدا ہو گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام الہامی مذاہب انسان کی نفسیاتی ضروریات سے آگاہ تھے‘ نبی صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ انسان کے جسم میں ایک عضو ہے‘ اگر وہ صالح ہوجائے تو سارا جسم صالح ہوجائے اور اگر وہ فاسد ہو جائے تو سارا جسم فاسد ہو جائے، آگاہ ہو جاؤ وہ قلب ہے ۔ اور اسی لیے یسوع مسیح نے اپنے مشہور پہاڑی وعظ میں بیان کیا ’’مبارک ہیں وہ جو اپنی روحانی ضروریات سے باخبر ہیں (متی ۵:۳ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن)