قربانی کو تفریح کا ذریعہ بنالیا گیا ہے،مقصد خشیت الہیٰ ہونا چاہئے

498

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) قربانی کے موقع پر نام و نمود کی وجہ اپنی دولت و ثروت کا اظہار، قربانی کو پکنک اور تفریح بنانا اور اسراف و فضول خرچی ہے‘ قربانی کا اصل مقصود تقویٰ، خشیت خداوندی اور اخلاص ہے‘ پاکیزہ دلوں سے قربانی کی جائے تاکہ قربانی قبول ہو‘مسلمان اپنی نیت کو درست کرکے صرف اور صرف اللہ تعالی کی خوشنودی کے لیے قربانی کرے‘ غریب اور نادار مسلمانوں کی قربانی کے گوشت کے ذریعے مدد کرے‘ جب جاکر اللہ تعالیٰ کو ہمارا یہ عمل قبول ہو گا ‘ انسان نام ونمود ، ریاکاری و دکھاوے سے مکمل اجتناب کرے۔ ان خیالات کا اظہار اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مفتی محمد زبیر، سابق ڈین سوشل سائنسز جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری، وفاقی اردو یونیورسٹی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ اسلامک اسٹیڈیز کی ڈین پروفیسر ڈاکٹر رابعہ مدنی اور جامعہ عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہما کے مہتمم مفتی عبدالقادر جعفر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’عیدالاضحی پر قربانی کے نمائشی کلچر پیدا ہونے کے اسباب کیا ہیں اور اس سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے؟‘‘ مفتی محمد زبیر کا کہنا تھا کہ قربانی کے موقع پر نام و نمود اور دکھاوے کے اسباب میں اپنی دولت و ثروت کا اظہار، قربانی کو پکنک، تفریح اور انٹرٹینمنٹ بنانا اور اسراف و فضول خرچی کی عادت ہونا جیسے امور شامل ہیں جبکہ قرآن کریم میں واضح طور پر یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے جانور کا گوشت پوست نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ اور دلی خلوص پہنچتا ہے‘ انسان نام ونمود، ریاکاری و دکھاوے سے مکمل اجتناب کرے۔ ڈاکٹر محمد احمد قادری کا کہنا تھا کہ عید الاضحیٰ مسلمانوں کا ایک ایسا دینی تہوار ہے کہ جس میں مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اللہ سے محبت کو یاد کرتے ہیں اور اسلام کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا عزم کرتے ہیں‘ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دینی فریضے کو اخلاص نیت کے ساتھ سرانجام دیا ہے‘جملہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سلسلے کو جاری رکھا‘ قربانی کی اصل دکھاوے کے بجائے اخلاص نیت ہونی چاہیے‘ آج اس بات پر بحث ہوتی ہے کہ تم نے یا میں نے کتنے کا جانور خریدا ہے‘ خریدنے سے پہلے ہی یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کون سے لوگ ایسے ہیں جن کے مقابلے پر ہمیں جانور خریدنا ہے‘ ایسے لوگ اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ذبیحہ سے قبل یہ طے کرلیا جاتا ہے کہ کون کون سے حصے کس طریقے سے بنیں گے اور کس کس طرح لوگوں کو خوش کرنا ہے‘ دکھاوے کا یہ عالم ہے کہ بعض لوگ لائٹنگ کرکے اسٹیج بنا کر جانوروں کو نمایاں کرتے ہیں‘ عجیب سا لگتا ہے کہ اس طرح سے قربانی کے جانور کی نمائش ہو تی ہے جبکہ قربانی عبادت ہے اور عبادت کو خاموشی سے کرنا چاہیے‘ وہ لوگ جو رشوت کے ذریعے آگے بڑھے ہیں وہ قربانی کے جانوروں کی نمائش میں بھی بہت آگے نظر آتے ہیں جو حقیقی قربانی دینے والے لوگ ہیں وہ ان لوگوں کو دیکھ کر کبھی کبھی احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں‘ قربانی کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم عبادت کو عبادت کی طرح کریں‘ ظاہری دکھاوے سے اپنے آپ کو دور رکھیں‘ اللہ کی رضا کے لیے قربانی دیتے ہوئے یہ عہد کریں کہ قربانی کا مقصد غریبوں کا خیال رکھنا، ضرورت مندوں تک ان کا حصہ پہنچانا اور اللہ کو راضی کرنا ہے‘ اخلاص نیت کے ساتھ جو قربانی کی جاتی ہے اس میں خود بخود انسان کو سکون ملتا ہے اور انسان اللہ کی رضا کے لیے جب اپنا سر جھکاتا ہے تو اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ اس کی جان و مال سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے ہے‘ پاکیزہ دلوں سے قربانی کی جائے‘ قربانی اللہ کی رضا کا نام ہے اس لیے سب سے بہترین جانور رزق حلال کے ذریعے اس کی راہ میں پیش کیا جائے۔ یہی شریعت کا تقاضا ہے اور یہی اللہ اس کے رسول کا بتایا ہوا راستہ ہے۔ ڈاکٹر رابعہ مدنی کا کہنا تھا کہ اسلام میں اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے جیسے نماز میں نیت درست ہو تو پوری نماز درست ہوتی ہے‘ اسی طرح قربانی کا جانور خریدتے وقت نیت اگر لوگوں کو دکھانے اور اپنی مالداری جتانے کی ہے تو یہ نیت ریا کاری کی ہوئی جس سے قربانی کا ثواب ضائع ہو سکتا ہے لیکن اگر ابتدا میں نیت صرف اللہ کی رضا کے لیے قربانی کرنے کی ہے اور جانور بھی اسی نیت سے خریدا ہے پھر بعد میں تعریفیں سن کر دل میں کچھ نام و نمود کے جذبات اُبھریں تو یہ معاملہ قربانی پر اثر انداز نہ ہوگا‘ کوشش یہ کی جائے کہ اچھا فربہ جانور خریدا جائے اور اگر بہت زیادہ اللہ نے حلال مال دیا ہے تو جانور کی تعداد بڑھا دی جائے یہ زیادہ بہتر ہے بانسبت اس کے کہ مہنگا ترین جانور خریدا جائے کیونکہ رسول اللہ نے ایک موقع پر100اونٹوں کی قربانی کی تھی جس سے ظاہر ہے‘ اگر ایک جانور اتنا مہنگا خریدا کہ اس کی جگہ 10 مناسب درمیانے جانور خریدے جاسکتے تھے تو 10 خریدنا بہتر ہے کیونکہ اس سے غریبوں کا زیادہ فائدہ ہوگا۔ مفتی عبدالقادر جعفر کا کہنا تھا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ عید قربان کا مطلب اللہ کی راہ میںجانور قربان کرنا ہوتا ہے مگر ہمارے معاشرے میں تو دولت کی نمائش نظر آتی ہے‘ جوں جوں مہنگائی کا گراف بڑھتا جا رہا ہے معاشرے میں دکھاوے اور خود نمائی کا گراف بھی ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے‘ اس کی وجہ غربت اور بدحالی ہی سمجھ میں آتی ہے‘ قربانی کے سلسلے میں احکام شریعت واضح طور پر موجود ہیں اور قربانی کے مسائل متعدد مرتبہ بیان کیے جاتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی عید الاضحی کے موقع پر کچھ ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں جس سے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ لوگ اللہ رب العزت کے احکامات کو فراموش کرتے ہوئے قربانی کے ذریعے اپنی بڑائی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں‘ ماہ ذی الحجہ کے آغاز کے ساتھ ہی بعض افراد اپنے قیمتی بکروں اور مینڈھوں کی نمائش شروع کر دیتے ہیں جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے خریدار صرف قربانی کے لیے بکرا نہیں خرید رہے ہیں بلکہ قربانی کے ساتھ انہیں نمائش بھی مقصود ہے‘ مسلمان اپنی نیت کی درستگی کرکے صرف اور صرف اللہ تعالی کی خوشنودی کے لیے قربانی کرے اور اس عمل سے اپنے غریب اور نادار مسلمانوں کی قربانی کے گوشت کے ذریعے مدد کرے ‘ خالق کائنات ہمارے اس قربانی کے عمل کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے‘ امین۔