حکومت کی جانب سے نوٹیفکیشن عموماً سیکشن آفیسر جاری کرتا ہے۔لیکن بجٹ کی منظوری اور نفاذ کا نوٹیفکیشن اسمبلی کا سیکرٹری جاری کرتا ہے۔ اسمبلی کا سیکرٹری کسی بھی محکمے کے سیکرٹری سے بالا تر حیثیت کے حامل ہوتا ہے۔یوں ان کا جاری کردہ بجٹ منظوری اور نفاذ کا نوٹیفکیشن بالا تر حیثیت کا حامل ہوتا ہے اور مزید کسی نوٹیفکیشن کے اجرا کا محتاج نہیں ہوتا۔بجٹ کی منظوری اور نفاذ کے ساتھ ہی اس میں منظور کردہ تمام مدات اور مراعات قابل نفاذ ہو جاتی ہے۔بجٹ میں منظور کردہ تمام مراعات کو ان محکموں کے سیکرٹری کے نوٹیفکیشن سے مربوط نہیں کرتا بلکہ ان کے فائدے حاصل کرنا شروع کر دیتا ہے ۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کو مزید کسی نوٹیفکیشن کے اجرا سے مشروط نہیں کرتی بلکہ فوری عمل شروع کر دیتی ہے۔لیکن جہاں معاملہ محنت کش طبقے کا آئے تو
پھر بجٹ کے نوٹیفکیشن کے باوجود محکمہ محنت کے نوٹیفکیشن کے اجرا کو شرط بناکر معاملہ کو غیر آئینی طور پر طول دیا جاتا تھا اور طویل عرصے تک یہ طبقہ اپنے حق سے محروم رہتا تھا ۔ پنجاب صوبہ نے غیر ہنر مند کے ساتھ ہی ہنر مند ورکرز کی اجرت کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے جو ایک مثبت عمل ہے مگر صوبہ سندھ میں ہر سال کی طرح اب چار نمائندے ایمپلائر کے، چار نمائندے ورکرز کے اور دو نمائندے گورنمنٹ کے منیمم ویج بورڈ کی سہ فریقی کمیٹی کے ممبران کا اجلاس ہوگا۔اکثریت رائے سے اصولی فیصلہ کیا جائے گا۔ پھر اعتراضات جمع کروانے
جائیں گے کیونکہ یہ ایمپلائر کا حق ہے کہ وہ اعتراضات جمع کرائیں ورنہ یہ ایمپلائر والے عدالتوں کا رخ کریں گے۔ پھر ان کا جائزہ لیا جائے گا۔ ایمپلائر کے نمائندوں کی درخواست پر اجلاس ملتوی ہو جائے گا۔ پھر سیکرٹری لیبر سے میٹنگ ہوگی عجیب تماشہ ہے ۔ 18 ویں آئینی ترمیم کی اصل روح کا محکمہ محنت سندھ نے غلط فائدہ اٹھایا ہے۔ بجٹ دستاویز کی آئینی حیثیت ہوتی ہے مزید نوٹیفکیشن کی ضرورت نہیں۔تمام آجر فوری طور پر اضافی اجرت پر عمل درآمد کریں۔چونکہ مسلسل 13 سالوں سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہی ہے جو بنیادی طور پر محنت کشوں اور متوسط طبقے کی پہچان رہی ہے۔ اب ان کی اعلی قیادت، وزیر اعلی سندھ، وزیر محنت، سیکرٹری لیبر سے مطالبہ کرتے ہیں کہ غیر ہنر مند کی طرح ہنر مند ورکرز کی اجرت کے نوٹیفکیشن کا اجراء کیا جائے تاکہ محنت کش طبقہ جولائی سے اپنی اضافی تنخواہ حاصل کر سکیں۔