کراچی (رپورٹ خالد مخدومی)صوبائی کابینہ کی جانب سے ٹھوس شواہد کے بغیر مقدمات میں نامزد ملزمان کی عدم گرفتاری کے قانون کی منظوری پر پولیس نے تحفظات کا اظہار کردیا،جب کہ وکلا نے نئے قوانین کے بجائے موجود ہ قوانین کے درست استعمال کو کافی قرار دیا۔معروف وکیل لیاقت علی گبول نے اس سلسلے میں جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پولیس رولز 26میں ترمیم گوکہ مناسب ہے تاہم اس نوعیت کے قوانین پہلے بھی موجود ہیں اور عام مقدمات میں پولیس مقدمات میں نامزد ملزمان کو فوری گرفتار نہیں کرتی بلکہ نامزد ملزم کے خلاف شواہد جمع کرتی ہے ،ان کا کہنا تھاکہ اگر پولیس کے موجودہ قوانین پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے تو پولیس کے رویے اور ان کی جانب سے بلاجواز گرفتاریوںکا سلسلہ روکا جاسکتا ہے۔ لیاقت گبول ایڈووکیٹ کا مزید کہنا تھاکہ پولیس اہلکاروں کی غیر مناسب انداز میں تقرریوں اور تبادلوں کا روکا جانا بھی حالات میں بہتری کے لیے ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ پولیس کے جو افسران اختیارات کے ناجائز استعمال اور بلاجوا ز گرفتاریوں میںملوث ہوتے ہیں وہ بار بار واقعات سامنے آنے کیبعدمذکورہ عہدے سے ہٹالیے جاتے ہیں، تاہم وہ جلد ہی کسی دوسرے تھانے یا تحصیل میں تعیناتی حاصل کرنے میںکا میاب ہو جاتے ہیں۔ لیاقت گبول ایڈووکیٹ کے مطابق اگراس طرح کی حرکات میں ملوث پولیس افسران کو بلیک لسٹ کردیا جائے اور ان کی دوبارہ انوسٹی گیشن پولیس میں تعیناتی نہ کی جائے تو بلاجواز گرفتاریوںکے عمل اور بے قصور افراد کو گرفتار کرکے بھتا وصولی کو روکا جاسکتا ہے۔ معروف وکیل عثمان خواجہ کے مطابق پولیس میں اہم عہدوں پر کم ازکم تعیناتی کی مدت کا تعین بھی ضروری ہے‘ کسی بھی ا نوسٹی گیش افسرکو ا س کی تعیناتی کے مقام پر 3سال تک رہنا چاہیے جس سے وہ اپنے دائرہ عمل میں آنے والے مقدمات کی تفتیش کا جواب دہ ہوسکے۔پولیس رولز میں تبدیلی پر پولیس حکام نے تشویش کا اظہار کردیا ہے‘ پولیس ذرائع نے پولیس رول میں کی گئی ترمیم پراپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے ایک پولیس افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ محدود وسائل اور مختص کی گئی کم رقم تفتیش کے لیے ناکافی ہوتی ہے جس کے باعثملزمان کا سراغ لگانے کے لیے پولیس افسران کو روایتی طریقے استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ ا ن کا کہنا تھاکہ پہلے ہی اتنی مشکل سے ملزمان کوپکڑتے ہیں، اب اگراس حد تک پابندی لگ گئی توکیسے کام کریں گے۔