تعلیم کی ڈولتی کشتی

522

دار ارقم وہ پہلی درس گاہ تھی جہاں اسلام قبول کرنے والے صحابہ کرام کی علمی ضرورت کو پورا کرنے کا بندوبست آپؐ نے فرمایا وہاں انسان کے لیے بنیادی تعلیم کیا ہونا چاہیے جس پر انسان کی فلاح کا دارو مدار ہے، آپؐ نے خود بنفس نفیس درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ جب آپؐ ہجرت کرکے مدینے تشریف لائے تو بھی آپؐ نے مسجد نبوی کی تعمیر کے ساتھ ہی صفّہ کا چبوترا تعمیر فرمایا تاکہ درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہے، ان ہی عظیم درس گاہوں نے دنیا کو بہترین سپہ سالار، اساتذہ، ماہرین معاشیات، عظیم قائدین اور سیاسی راہنما فراہم کیے اس کے بعد خلفاء راشدین کا زریں دور اس میں بھی کوئی ایک دن بھی ایسا نہ گزرا جس میں تعلیم اور تدریس کا سلسلہ رکا ہو۔ یہ سلسلہ دنیا بھر میں جہاں بھی مسلمان حکمران ہوئے جاری و ساری رہا بعد کے ادوار میں جب ملوکیت کی چادر نے خلافت کو ڈھانپ لیا اور بہت ساری خرابیاں اور کمزوریاں درآئیں مگر نئی نسل کو تعلیم اور تربیت سے آراستہ کرنا ہر بادشاہ اپنا فرض سمجھتا رہا سقوط بغداد کے بعد جب ہلاکو خان نے تمام لائبریریاں جلوا دیں اور ان کتابوں کی سیاہی سے دریا فرات کا پانی سیاہ ہوگیا۔ اتنی بڑی تباہی کے بعد دوبارہ بھی جب مسلمان بادشاہوں اور فاتحین کا دور آیا تو نسل نو کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ دوبارہ بڑی تیزی سے جاری ہوا برصغیر میں بھی جب مغل بادشاہوں کا زمانہ تھا تو یہ خطّہ علم کی روشنیوں سے دنیا بھر میں جگمکا رہا تھا۔ ان تمام ادوار کا دورانیہ بڑا طویل بھی ہے جس میں ہر طرح کے حالات تھے مگر ہر طرح کے حالات میں مغل بادشاہوں کی اکثریت نے بڑی بڑی رقوم خرچ کرکے مدارس قائم کیے ان کے اخراجات اٹھائے ان مدارس میں دینی اور دنیاوی دونوں علوم سے طلبہ کو آراستہ کیا جاتا تھا۔
حکومت تعلیم مد میں بہت بڑی رقوم صرف تعلیم و تدریس پر خرچ کرتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ برصغیر میں آباد تمام لوگ سو فی صد تعلیم یافتہ تھے اسناد (ڈگری) کے ساتھ ساتھ ان کے اندر قابلیت کا جوہر موجود ہوتا وہ علم و ہنر میں ماہر ہوتے تھے۔ مگر جیسے ہی انگریزی اقتدار برصغیر پر قائم ہوا قابض حکومت نے سب سے پہلے تعلیمی نظام پر حملہ کیا اور اس کو تاراج کیا وہ جانتے تھے کہ مسلمانوں کی عظمت رفتہ بہترین نظام تعلیم کی بدولت ہے نصاب تعلیم کو تبدیل کردیا گیا مسلمانوں پر تعلیم کے دروازے بند کردیے گئے۔ نوکریوں کے دروازے بند کردیے گئے۔ انگریزوں کے نصاب تعلیم سے ایسے افراد تیار ہونے لگے جن کا مقصد صرف انگریزوں کی نوکری کرنا تھا اور ڈگریوں کا حصول تھا رفتہ رفتہ یہ ذہنیت عام طور پر بنتی گئی ان میں سے ایسے بہت سے آلہ گار انگریزوں کے اس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے ہاتھ آگئے۔ یہی لوگ آج پاکستان کے پورے تعلیمی نظام پر مسلّط ہیں جو پاکستان کے تعلیم اداروں کو تباہ کررہے ہیں۔ کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے کہ اس سے پاکستان کا پورا تعلیمی نظام برباد ہوجائے جب تعلیمی نظام تباہ ہوگا تو بڑی آسانی سے پاکستان کا مستقبل تباہ ہوگا کیونکہ نسل نو کی تعلیم اور تربیت خوشحال پاکستان کی ضمانت ہے۔ اب اس طبقے کے ہاتھ کورونا وائرس کی وبائی صورت حال آگئی ہے۔ دنیا کے تمام وہ ممالک جہاں شرح خواندگی صد فی صد ہے یا اس کے قریب ہے وہاں سب سے پہلے حفاظتی اقدامات کے ساتھ تعلیمی سلسلہ شروع ہوگیا مگر پاکستان میں کچھ زیادہ ہی پھرتی دکھائی گئی تمام تعلیم ادارے سب سے پہلے بند کردیے گئے اور یہ باور کرایا جارہا ہے کہ وہ بچّوں کے بڑے خیر خواہ ہیں۔ پہلے تو بچّوں کو بغیر امتحانات لیے ہی دوسری کلاسوں میں ترقی دے دی گئی اس کے بعد اب امتحانات کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے اور نویں اور دسویں کے امتحانات نے تو خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ معیار تعلیم کی کشتی ڈولنے لگی ہے اور عن قریب ڈوبنے کو ہے۔ کئی دہائیوں سے سندھ کے اندر پیپلز پارٹی نے تعلیم دشمنی کی پالیسی اختیار کررکھی ہے اور کراچی اور حیدر آباد میں یہ فریضہ ایم کیو ایم نے انجام دیا جب یہاں نقل کلچر کو عام کیا اور طالب علموں کے ہاتھ سے قلم لے کر ہتھیار تھمایا تعلیمی ادارے ڈگریاں چھاپنے کی مشین ہوگئے، اب طالب علم بے چارے کو بس اس دوڑ میں لگا دیا ہے کہ مارکس کو بہتر بنانا ہے اور ڈگری کسی طرح حاصل کرنا ہے اس کے لیے تمام جائز و ناجائز طریقے اپنائے جارہے ہیں اس کی وجہ درس گاہیں اب قابلیت نہیں بلکہ ڈگر چھاپ چھاپ کردینے میں مصروف ہیں۔ دنیا میں جتنی فلاحی ریاستیں ہیں وہ اپنے ہر شہری کی صحت، تعلیم اور روزگار کی ذمے دار ہوتی ہیں مگر افسوس ہمارے ملک میں جو صحیح معنوں میں اسلامی ریاست بننے کے لیے وجود میں آیا تھا آج اس میں صحت، تعلیم کے لیے انسان ساری زندگی کی جمع پونجی خرچ کردیتا ہے اس کے باوجود بھی آج صحت اور تعلیم عام شہری کی پہنچ سے دور ہوتا جارہا ہے بلکہ سب سے بڑا مسئلہ پیٹ بھرنے کا ہوتا جارہا ہے۔
آئی ایم ایف کی رہنمائی میں بننے والے بجٹ نے تو ویسے ہی عوام کی کمر دوہری کردی ہے مگر تعلیم کے شعبے میں بھی حکومت اپنی کوئی پالیسی نہیں رکھتی ہے بلکہ وہ بیرونی آقاؤں کی رہنمائی میں مرتب کی جارہی ہے جو سراسر تعلیم دشمن ہے اس طرح پاکستان کا گراف نہایت تیزی کے ساتھ نیچے گر رہا ہے۔ گزشتہ دنوں حکومت نے ایسے طلبہ و طالبات کے لیے بھی تعلیم کے دروازے بند کرنے کا اعلان کیا تھا جو اپنی معاشی مصروفیات کی وجہ سے پرائیویٹ پڑھتے اور پھر امتحانات دے کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے تھے۔ تعلیم دشمن پالیسی صرف ان طلبہ و طالبات کے لیے نہیں اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند کر رہی ہے جو معاشی مصروفیات کی بناء پر قابلیت کے باوجود رہ جاتے ہیں یہاں تو وہ طلبہ و طالبات بھی متاثر ہورہے ہیں جو میڈیکل کے شعبے میں مہارت حاصل کرکے اپنے ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ مثال کے طو ر پر ابھی گزشتہ دنو ں آئی پی ایم آر کے طلبہ و طالبات جن کے والدین نے اپنی پوری زندگی کی جمع پونجی اپنے بچّوں کے بہتر مستقبل کے لیے خرچ کرکے ڈاؤ میڈیکل کے شعبے آئی پی ایم آر میں داخلہ دلوایا یہ ادارہ ڈاؤمیڈیکل کالج کا ہے اور اسی ادارے نے ان طلبہ و طالبات کو مذکورہ ڈگری کے لیے داخلہ دیا تھا مگر بھاری فیسیں اینٹھنے کے بعد ان طلبہ طالبات جو سیکڑوں کی تعداد میں ہیں ان کو اپنے سے الگ کرنے کا اعلان کردیا یہ خبر تو طلبہ و طالبات پر بجلی بن کر گری ان کے خواب چکنا چور ہوچکے ہیں ان کا مستقبل تاریک کرنے کی اپنی سی کوشش کر ڈالی گئی ہے۔ ایسے میں ان مظلوم طلبہ و طالبات نے پرنسپل اور وی صاحبان اور دیگر متعلقہ افراد تک رسائی حاصل کی مگر ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کے مصداق یہ طالب علموں کا احتجاج دیکھ رہے ہیں۔ لیکن ایسے میں طلبہ طالبات نے ادارہ نور حق جماعت اسلامی کے امیر حلقہ کرچی حافظ انجینئر نعیم الرحمن کو پکارا ہے بالکل اسی طرح جیسے نادرا کے ستائے ہوئے لوگوں نے پکارا تھا، شہر کے دیگر مسائل میں گھیرے لوگوں نے پکارا تھا۔ ان معصوم قوم کے ہونہاروں کے ساتھ پریس کانفرنس کے بعد حافظ نعیم الرحمن نے ان طلبہ و طالبات کے مسئلے کو حل کروانے کے عزم اظہار کیا ہے جہاں ہر طرف ظلم کی تاریکی ہے ایسے میں حافظ صاحب اور جماعت اسلامی اس ملک کے مظلوموں کے لیے امید کی کرن ہیں تادم تحریر ڈاؤمیڈیکل کالج کے باہر مظاہرہ جاری ہے۔ عدالت عظمیٰ جب دیگر مسائل میں سو موٹو ایکشن لے سکتی ہے تو اس مسئلے میں خاموشی سمجھ سے بالا تر ہے۔