بھارت نے کشمیر پر جبراً قبضہ کیا۔ کشمیریوں نے اس قبضہ کے خلاف بغاوت اور احتجاج کے ساتھ پاکستان کو اپنا وکیل بھی بنایا۔ اس طرح مسئلہ کشمیر میں پاکستان، بھارت اور کشمیری فریق کی حیثیت رکھتے ہیں یہ مسئلہ آج کا نہیں بلکہ تقسیم ہندوستان کے وقت سے چلا آرہا ہے، کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کئی جنگیں بھی ہوئیں۔ آئے دن کشمیر کی سرحد جس کو لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے پر بھی گولہ باری کا تبادلہ کرتا رہتا ہے۔ ادھر جموں کشمیر کے عوام بھی وطن عزیز کی آزادی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ ان کی اس جدوجہد سے مسئلہ ایک مرتبہ پھر دنیا کی توجہ حاصل کرچکا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ کشمیر کی حمایت کی اور کشمیر کی آزادی تک کرتا رہے گا۔ ایمانداری سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک میں بڑی بڑی سیاسی جماعتیں موجود ہیں مگر جو کام جماعت اسلامی کشمیر کے حوالے سے کرتی اُس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ پاکستان کا بڑا صاف ستھرا اور تسلیم شدہ موقف ہے کہ کشمیریوں کو فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے۔ رائے شماری جس کو اقوام متحدہ نے تسلیم کیا ہوا ہے اور جمہوری دنیا میں قوموں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا ایک معزز طریقہ بھی یہی ہے۔ ہندوستان پورے جموں اور کشمیر پر ملکیت کا دعوے دار ہے اور ماضی میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیے گئے وعدوں کا انکاری ہے۔ لمحہ ٔ فکر‘ یہ ہے کہ دنیا کی پالیسی اور فیصلہ ساز طاقتیں اس کے اس امر کی مذمت تک نہیں کرتیں، کبھی کبھی ایسے واقعات ہوجاتے ہیں جو تاریخ کا رُخ موڑ دیتے ہیں۔
کشمیر کی نئی نسل کے رہنما برہان وانی نے بھی کشمیر کی تاریخ کو اپنی تخلیقی سوچ سے رُخ موڑنے پر مجبور کردیا اور مورخین اس بات پر مجبور ہوگئے کہ کشمیر کی ایک نئی تاریخ مرتب کریں۔ بہادری کی، صبر آزما جدوجہد کی، ردعمل کی، مزاحمت کی، تحریک حریت کی۔ برہان وانی نے ان سب کو ایک نئی جہت، نیا رخ دیا۔ اسی کو کہتے ہیں تاریخ کا دھارا موڑنا۔ قوموں کی تاریخ میں ایسے مواقع اس وقت آتے ہیں جب کوئی رہنما اپنے کردار اور عمل سے وقت کے ہجوم کو، ایک جم غفیر کی بصیرت، غیرت اور حمیت کو بے دار کردے۔ برہان وانی نے ایسا ہی کیا اس نے بہت کم وقت میں کشمیر کے سماج میں ہلچل مچادی۔ جو بات دبے لفظوں شیخ عبداللہ کہتے رہے، جو بات شہید مقبول بٹ کہتے کہتے پھانسی پر چڑھ گئے جو افضل گرو سمیت 70 برسوں کے دوران سیکڑوں سیاسی قائدین اور کارکنان نے کی جن سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ زمانہ قدیم سے آج تک ہر صدی ایسے لازوال کردار موجود تھے جنہوں نے اپنے اپنے طور پر آزادی کشمیر کی جدوجہد کی۔ مگر برہان وانی جس کا پورا نام برہان مظفر وانی ہے ایک ایسا کردار اور تاریخ ہے جس نے آزادی کی جنگ کو چار چاند لگادیے۔
جنوبی کشمیر کے علاقے نزالی کا 21 سالہ برہان وانی جو بھارتی فوج اور کشمیر حکومت کے لیے خوف کی علامت بن چکا تھا، جس کے سر کی قیمت 10 لاکھ روپے مقرر کی گئی تھی۔ برہان وانی کا خوف محبوبہ مفتی سرکار کو اس قدر تھا کہ اس کا تذکرہ کشمیر اسمبلی میں بھی ہوتا رہا۔ اراکین نے اسمبلی کے فورم پر کہا کہ حکومت کو برہان وانی سے مذاکرات کرنے چاہئیں۔ دراصل اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آزادی کشمیر کی تحریک میں کشمیریوں کی یہ تیسری نسل ہے جو ناموس وطن پر قربان ہورہی ہے۔ برہان وانی 19 ستمبر 1994ء کو پیدا ہوا۔ ان کے والد جموں و کشمیر میں ایک اسکول ٹیچر تھے۔ 15 سال کی عمر میں حق کے راستے پر چل پڑا کھیلنے کی عمر تھی پھر کیوں 15 سالہ بچے نے اتنا بڑا اور مشکل فیصلہ کیا۔ بھارتی فوج کی طرف سے کشمیریوں کے ساتھ جو ظلم و زیادتی ہورہی ہے، مائوں، بہنوں، بزرگوں، بچوں کی جو بے عزتی ہورہی ہے وہ کوئی غیرت مند بچہ برداشت نہیں کرسکتا۔ برہان وانی نے نہ صرف حریت پسندوں کی رہنمائی کی بلکہ سماجی رابطوں پر بھی مقبول رہا۔ جہاں وہ اپنی تصاویر اور ویڈیو بھیجا کرتا تھا۔ سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار بھرپور انداز سے استعمال کیا۔ اس مہم میں کشمیر کے نوجوان تحریک کی طرف مائل ہوئے، بہت کم عرصے میں برہان پورے کشمیر کے نوجوانوں میں مقبول ہوا۔ کشمیر کی آزادی کے لیے شہید ہونے والا ہر کارکن اور رہنما معتبر ہے مگر برہان نے جو شہرت پائی وہ منفرد ہے اور
تحریک کے لیے چند برسوں میں اس نے جو کام کیا وہ کئی عشروں کے کام پر بھاری ہے۔ وہ صرف ایک شہید حریت پسند قائد ہی نہیں کشمیر کے نوجوانوں کا رول ماڈل بن گیا۔ تحریک آزادی کے ساتھ قوم کو جتنا برہان نے جوڑا وہ کسی بڑے سرکردہ اور بصیرت آور سیاسی رہنما بھی نہیں کرسکا۔ حکومت ہند برہان سے اس لیے خوفزدہ نہیں تھی کہ وہ ایک مجاہد کمانڈر تھا بلکہ اس نے کشمیر میں بھارت کے خلاف نفرت کا انقلاب برپا کردیا تھا۔ حکومت کو فکر تھی کہ اگر وہ چند سال اور زندہ رہا تو ہندوستان کی ساری فوج بھی جھونک دی جائے تو بھی کشمیر میں انقلاب رُک نہیں پائے گا۔ اسی وجہ سے حکومت اس کی اور اس کے خاندان کی جان کے درپے رہی۔ اس کے بڑے بھائی خالد مظفر وانی کو 14 اپریل 2015ء کو شہید کردیا پھر 8 جولائی 2016ء کو برہان وانی اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ بھارتی فوج کے ساتھ دو گھنٹے جاری رہنے والے معرکہ میں شہید ہوا۔ اس کی شہادت کے بعد کشمیری مزاحمت کی تاریخ میں سب سے طویل ترین مظاہروں کا آغاز ہوا جو اب تک جاری ہے۔ برہان وانی کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفنایا گیا، وہ پاکستان سے محبت کرتا تھا۔ بھارتی فورسز کے لیے زندہ برہان سے شہید برہان زیادہ خطرناک ثابت ہوا۔ کشمیر میں مسلح جدوجہد تیز ہوئی، برہان نے تحریک آزادی کے لیے سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو تیار کیا تھا، اب وہ سڑکوں پر نکل آئے، شہید برہان وانی کو شہید عمر مختار اور ان کے والد کو محسن کشمیر کا خطاب دیا گیا۔ لوگوں کے علم میں ہوگا کہ عمر مختار لیبیا کی جنگ آزادی کا ہیرو تھا۔