پاکستان کو چین اور امریکا سے تعلقات میں توازن برقرار رکھنا ہوگا

358

کراچی ( رپورٹ \محمد علی فارق) کسی کی خوشی یا نارضگی کی خاطر پاک چین دوستی کو قربان نہیں کیا جاسکتا، پاکستان کو دونوں ممالک سے تعلقات میں توازن بر قر ار رکھنا چاہیے، چین کے ہمارے ساتھ روایتی، سیاسی ، معاشی ، سفارتی اور دفاعی ہر قسم کے تعلقات ہیں، امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی نوعیت وقتی مفادات پر ہے جس میں دونوں ممالک نے ہی فائدے حاصل کیے ہیں، امریکا چاہتا تھا کہ افغانستان میں کی گئی غلطیوں کو دوسروں کے سر منڈ کر اپنی جان چھڑالے، پاکستان کے مفادات سی پیک کی شکل میں چین سے جڑے ہوئے ہیںجبکہ پاکستان کے اسٹیک ہولڈ ر کے ذاتی مفادات مغر ب سے جڑے ہوئے ہیں ،پاکستان کو چین اور امریکا سے اپنی شناخت ، آزادی ،خودمختاری اور مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی تعلقات استوار کرنے چاہییں،ہمیںماضی کی غلطیوں کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہے کہ اپنے ملک کو کن مشکلات سے بچا کر کس قسم کا فائدہ پہنچا سکتے ہیں، دونوں ممالک ہی کو پاکستان کی ضرورت اور پاکستان کوان دونوں ممالک کی ضرورت ہے،پاکستان اب امریکی لابی سے نکل کر اینٹی امریکی لابی میں آجائے بحرحال پاکستان اور امریکا کو ایک دوسرے سے تعلقات بحال کرنے ہی پڑیں گے۔ان خیالات کا اظہارسابق سفیر عزیز احمد خان، جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر راشد نسیم اورسوشل پالیسی اینڈ ڈولپمنٹ سینٹر کراچی کی منیجنگ ڈائریکٹر معروف تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر خالدہ غوث نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ سابق سفیر عزیز احمد خان نے کہا کہ ممالک کے درمیان تعلقات میں کسی کی خوشی اور نارضگی کی کو ئی اہمیت نہیں ہے ، پاکستان کے چین کے ساتھ ہر قسم کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت پرانے اور گہرے مراسم ہیں کسی کی خوشی کی خاطر اس دوستی کو قربان نہیں کیا جاسکتا، جہاں تک یو نائیٹڈ اسٹیٹ کا تعلق ہے پاکستان بننے کے بعد ہمارے ان سے بھی اچھے تعلقات رہے فرق صرف اتنا ہے کہ ان تعلقات کی نوعیت وقتی مفادات پر کی جاتی رہی جس میں امریکا اور پاکستان دونوںممالک نے ہی فائدہ حاصل کیا ہے ، حالیہ دور میں دونوں ممالک کے درمیان کچھ مشکلات بڑھی ہیں اس کی وجہ امریکا کا پاکستان پر بہت زیادہ انحصار تھا ، امریکا چاہتا تھا کہ افغانستان میں کی گئی غلطیوں کو دوسروں کے سر منڈ کر اپنی جان چھڑالے ، افغانستان میں کوئی ایک گروہ یا پارٹی حکومت نہیں بنا سکتی سب نے مل کر ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے ، افغانستان میں علاقائی تمام ممالک بشمول امریکا ، چین ، ایران ، روس ، اور پاکستان کو اپنا کر دار ادا کرنا پڑے گا۔ عزیز احمد خان نے کہا کہ امریکا ایک بڑا ملک ہے اس کی اپنی ایک حیثیت ہے ابھی تک دنیا کی سب سے بڑی معاشی ، دفاعی اور سیاسی قوت رکھتا ہے پاکستان کا ٹریڈنگ پارٹنر بھی ہے، پاکستان کے ہزاروں طالب علم امریکا سمیت یورپ کے مختلف اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ لاکھوں پاکستانی وہاں روزگا ر کے سلسلے میں محنت مزدوری کر رہے ہیں، دونوں ممالک کو ایک چھوٹے سے اختلاف کے تناظر میں پرکھا نہیں جاسکتا، پاکستان اور امریکا کو ایک دوسرے سے تعلقات بحال کرنے پڑیں گے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے ، جذباتی فیصلوں سے کام نہیںچلے گا، اس سلسلے میں پاکستان کو اپنے سفارتی تعلقات کو بہتر انداز میں استعمال کر تے ہوئے بردباری اور خاموشی سے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے، مشکلا ت آئیں گی مگر پاکستان میں اہلیت ہے کہ وہ سفارتی سطح پر تسلی کے ساتھ آہستہ آہستہ اس صورت حال پر قابو پالے گا ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر راشد نسیم نے کہا ہے کہ پاکستان اب تک دونوں اطراف سے ڈیل کر تا رہا ہے ، گویا کہ ایک لمبا عرصہ ایسا گزرا ہے کہ پاکستان امریکا کی گود ی میں تھا اب سی پیک کے بعد اس سے نکل کر چین کے قریب آیا ہے ، اس وقت پاکستان ایک نازک دوہرائے پر ہے دونوں ممالک کو خوش کرنا خاصہ مشکل کام ہے لیکن کیفیت یہ ہے کہ پاکستان کے مفادات سی پیک کی شکل میں اس وقت چین سے جڑے ہوئے ہیں اور پاکستان کے اسٹیک ہولڈر یا کرتے دہرتے ذمے داران کے ذاتی مفادات مغر ب سے جڑے ہوئے ہیں ان کی جائدادیں اور اولادیں سب مغرب میں ہیں وہیں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، انہوںنے کہا کہ پاکستان میںموجود مغربی لابی کے ذاتی مفادات امریکاسے وابسطہ ہیں دوسری جانب پاکستان کے اجتماعی مفادات چائنا سے وابسطہ ہیں، ایسی صورت حال میں پاکستان کے فیصلہ کرنے والوں کے لیے آزمائش ہے، میرا ذاتی خیال ہے کہ افغانستان کی صورت حال نے خطے کے حالات کو یکسر تبدیل کر دیا ہے اس تناظر میں پاکستان کی ضرورت بن گئی ہے کہ وہ امریکی لابی سے نکل کر اینٹی امریکی لابی میں آجائے چاہے اس میں چائنا ہو یا کو ئی دوسرا ملک، پاکستان کو اس وقت چاہیے کہ وہ پس پردہ رہ کر افغانستان کے ساتھ کھڑا ہوجائے یہی پاکستان کے مفاد میں ہے ۔ پروفیسر خالدہ غوث نے کہا کہ چین اور امریکا کے ساتھ تعلقات میں توازن بر قر ار رہنا چاہیے، ہم امریکا اور چین میںسے کسی ایک کو ترجیح نہیںدے سکتے دونوں ممالک کی پاکستان میںسیاسی ،معاشی ، سفارتی سطح پر اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے ، دونوں ممالک ہی کو پاکستان کی ضرورت اور پاکستان کوان دونوں ممالک کی ضرورت ہے، چین بھی کشیدگی کو اتنا نہیں بڑھا ئے گا کہ صورت حال جنگ تک چلی جائے کیونکہ بھارت چین کے لیے ایک بہت بڑی معاشی منڈی ہے، ساؤتھ ایشیائی ممالک میں پاکستان کا اہم کر دارہے، امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میںاتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے جبکہ چین کے ساتھ ہمارے روایتی تعلقات کے ساتھ سیاسی ، معاشی ، سفارتی اور دفاعی تعلقات بھی ہیں، حالیہ صورت حال میں امریکا نے افغانستان سے انخلا کے باوجود ساؤتھ ایشیا ئی ممالک سے تعلقات ختم نہیں کیے ساؤتھ ایشیا میں امریکا کی مداخلت بہت زیا دہ ہے، مختلف ممالک سے تعلقات کے دوران بعض دفعہ دباؤ کا سامنا بھی کر نا پڑ تا ہے تاہم اپنی آزادی اور خودمختاری کو برقرار رکھتے ہوئے ہی فیصلے کیے جا نے چاہییں، اگر پاکستان معاشی اور سیاسی طور پر کمزور ہو گا تو دباؤ کو محسوس کرے گا، معاشی اور سیاسی طورپر ملک مضبوط ہو تو وہ کسی دباؤ کو خاطر میں نہیںلا ئے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کو اس صورت حال میں چین اور امریکا سے اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کس نوعیت کے تعلقات استوار کرنے چاہییں جس سے پاکستان کی شناخت ، آزاد ی اور خودمختاری پر آنچ نہ آئے ، پروفیسر خالدہ غوث نے کہا کہ پاکستان کو امریکا سے تعلقات رکھنے کے لیے بالکل صاف ستھرے اور دو ٹوک انداز میں ڈیل کرنا ہوگی اور اس بات کا اظہار کر نا ہوگا کہ وہ امریکا سے کن کن شعبوںمیں تعلقات چاہتا ہے تاکہ کسی قسم کا ابہام پیدا نہ ہو کیوں کہ امریکا اور پاکستا ن دونوں کے ایک دوسرے سے مفادات وابسطہ ہیں، اگر پاکستان امریکا سے فاصلے بڑھا لیتا ہے تو پھر امریکا اور بھارت ہمارے لیے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں ،ہمیں بھارت کے لیے بھی کھلا میدان نہیںچھوڑناچاہیے، پاکستان اس بات کا اظہار کئی بار کر چکا ہے کہ وہ امریکا سے ٹریڈ کو بڑھانا چاہتا ہے،اس سلسلے میں سیاسی اور معاشی تعلقات بھی استوار ہوں تو دونوں ممالک کے درمیان ہم آہنگی میں مزید وسعت پیدا ہوگی اور ہمیں اس بات کا علم رہے گا کہ پاکستان کہاں سے کاؤنٹر ہوسکتا ہے جبکہ ہمیں اس بات کا ادراک بھی رہے گا کہ امریکا سے ہم اپنے حق میں کہاں تک فائدہ حاصل کر سکتے ہیں، پاکستان میں ادارے مضبوط پالیسیاں بنائیں اور اس کے تسلسل میں کہیں جھکاؤ پیدا نہ ہو تو دوسرے ممالک مداخلت نہیںکر سکتے، اگر پالیسیاںاداروں کی جگہ فرد اپنے ذاتی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پسند نا پسند اور جذباتیت کی بنیاد پر بنائیں گے تو پھر دوسرے ممالک کی مداخلت بڑھ جا تی ہے اور ملک کمزور ہوجا تا ہے ، ہمیںماضی کی غلطیوںسے سبق حاصل کرتے ہوئے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ ہم آئندہ آنے والے وقت میں اپنے ملک کو کن مشکلات سے بچا سکتے ہیں اور کس قسم کا فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔