محمد اقبال! اسلامی مزدور تحریک کا ستارہ جو غروب ہوگیا

160

ایشیا سفید ہے، ایشیا سرخ ہے، ہزاروں مزدور دو واضح گروپس کی شکل میں شدت سے نعرے لگارہے تھے کراچی شپ یارڈ میں ریفرنڈم کیا تھا ایک نظریاتی جنگ تھی 1980ء کا دور تھا معروف لیبر لیڈر محترمہ کنیز فاطمہ بے شمار اداروں میں CBA رہتے ہوئے سرخ پھریروں کے سایے تلے اپنی سابقہ کامیابیوں کے نانشہ سے سرشار کراچی شپ یارڈ میں اپنی یونین کی فتح کی خبر کے لیے مطمئن و مسرور تھیں۔ دوسری طرف نیشنل لیبر فیڈریشن سے منسلک نووارد یونین کے جذباتی مزدور سبز پرچم تھامے محمد اقبال کی سربراہی میں سرخ آندھی سے ٹکرانے کے لیے بے چین و بے قرار تھے۔ پھر دھماکا خیز خبر آئی۔ 1957ء سے ادارے میں براجمان کمیونسٹ پارٹی اپنے سرخ پرچموں کے ساتھ شمع یونین سے شکست کے بعد اپنی بساط لپیٹ چکی تھی۔ سبز پرچموں سے لیس نیشنل لیبر فیڈریشن اسلامی نظریاتی مزدور فیڈریشن سے منسلک یونینز کی کامیابیوں کی ٹرین براستہ PIA، ریلوے، PNSC، KMC، واٹر بورڈ میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑھنے کے بعد کراچی شپ یارڈ میں ہارن بجاتی داخل ہوچکی تھی۔ یہ کوئی معمولی فتح نہیں تھی، اُس
وقت کی بڑی بریکنگ نیوز اور شہ سرخی تھی۔ کمیونسٹ نظریات کی پاکستان میں سب سے بڑی لیڈر جن کی سپورٹ براہ راست ماسکو سے ہوتی تھی اپنے مضبوط قلعہ میں ڈھا دی گئی تھیں۔ کراچی شپ یارڈ میں محمد اقبال کی سربراہی میں ایک مضبوط ٹیم وجود میں آئی۔ جس نے لگاتار 5 ریفرنڈم جیت کر ٹریڈ یونین تاریخ میں ایک نئی تاریخ رقم کی۔ بعدازاں یہ ٹیم نیشنل لیبر فیڈریشن کو مضبوط کرنے میں معاون ثابت ہوئی۔ یوم خندق، یوم بدر کے علاوہ مختلف مزدور مظاہروں میں کراچی شپ یارڈ کے مزدوروں کی حاضری واضح کامیابی کی علامت ہوتی تھی۔ محنت کشوں کے لیے محمد اقبال کا کردار مضبوط چٹان کی طرح ہوتا تھا۔ ایک دلیر مضبوط اعصاب کے مالک محمد اقبال نے مختلف مینجمنٹ سے مثالی چارٹر آف ڈیمانڈز حاصل کیے۔ ان کے دور میں کراچی شپ یارڈ میں محنت کشوں کو عزت و وقار ملا۔ کرپشن سے پاک ایک مثالی ٹیم انتظامیہ اور ڈائریکٹر لیبر کے لیے بھی اطمینان کا باعث تھی۔ ان کے دور میں شپ یارڈ میں بلاتعطل جہاز سازی جاری رہی۔ کسی قسم کا نقص امن
ظہور پذیر نہ ہوا۔ محمد اقبال کے ساتھی حاجی احمد خان بحیثیت صدر ان کے بہترین معاون تھے۔ رکن جماعت اور باوقار شخصیت کے حامل تھے، یہ ایک ایسی باکردار ٹیکنیکل سائونڈ ٹیم تھی جس نے کراچی شپ یارڈ میں مزدور کی کایا پلٹ دی تھی۔ تنظیم سازی، شخصیت سازی کا عمل منظم اور گہرا تھا جس کے باعث کارکنان اپنے لیڈر کے ایک اشارے پر تن من دھن قربان کرنے کو تیار رہتے تھے۔ محمد اقبال نے کراچی شپ یارڈ کے لیبر لیڈرز کو لیبر قوانین پر گرفت کے لیے پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ بذریعہ نیلاٹ کروائے جس کی بدولت لیبر قوانین پر دسترس، واقفیت اس ٹیم کا وطیرہ بن گئی۔ ایک ایسی ٹیم تیار ہوئی جس کے کارکنان نے بعدازاں نیشنل لیبر فیڈریشن کی رہنمائی کے لیے متعدد لیڈرز فراہم کیے۔
واضح کارکردگی اور بہترین لیڈر شپ کے باعث محمد اقبال نیشنل لیبر فیڈریشن کراچی کے جنرل سیکرٹری نامزد ہوئے۔ یہاں سے ان کا سفر قومی سطح پر لیبر کی ویلفیئر کے لیے شروع ہوا، بے شمار ٹریڈ یونین کراچی زونز سے منسلک ہوگئیں جن کی داد رسی کے لیے محمد اقبال ہمہ وقت دستیاب رہتے، ادارے میں ریفرنڈم کی سرگرمیوں، کارکنوں کی نظریاتی تربیت سے لے کر ان کے اداروں میں چارٹر آف ڈیمانڈز میں مذاکرات تک ان کی مدد کی جاتی۔ 2002ء میں پرویز مشرف دور میں بڑے پیمانے پر گولڈن ہینڈ شیک دیا گیا۔ کراچی شپ یارڈ میں بھی کام کم ہونے کے باعث اسکیم نافذ ہوئی۔ ادارے میں بعض گمبھیر صورت حال کے باعث محمد اقبال نے گولڈن ہینڈ شیک لے کر مزدوروں کی بقیہ خدمات کے لیے معروف وکیل چودھری رشید کے ساتھ وکالت شروع کردی۔ LLB اور لیبر لاز میں ڈپلومہ کے باعث جلد محنت کشوں کی توجہ پھر محمد اقبال کی طرف ہوگئی۔ محمد اقبال نے بے شمار مقدمات میں محنت کشوں کے لیے بہترین خدمات انجام دیں۔ آخری دنوں میں سخت محنت کے ساتھ شوگر اور عارضہ قلب کا شکار ہوئے، وزن کم ہوتا گیا اور بالآخر 3 جولائی 2021ء کو اس فانی دنیا کو خیر باد کہہ کر ابدی زندگی کی طرف روانہ ہوگئے۔