بہتر موثر نظام زندگی کی خواہش

575

روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی ہے۔ تحریک انصاف کے یہ سنہری الفاظ اب شاید تحریک انصاف کی موجود حکومت کو بھی یاد نہ ہوں البتہ عوام مہنگائی، بے روزگاری کے دوران میں صبح شام ان الفاظ کو یاد کرتے ہیں کہ یہ کیسی تبدیلی آئی ہے کہ جو نہ احتساب کر کے قومی دولت لوٹ کر بیرونی ممالک میں اثاثے بنانے والوں کو سزائیں دلا سکی ہے اور نہ ہی اپنی جماعت کے چینی، آٹا، دوائی چوروں کو عوام کے سامنے پیش کر سکی اور نہ ہی غریب کی زندگیوں میں خوشحالی لا سکی ہے۔ خان حکومت کو تین سال گزرنے کو ہیں مگر مہنگائی، بے روزگاری کا جن قابو میں نہیں آسکا، دوسری جانب احتساب کے نام پر ایک ایسا تماشا جاری ہے جس نے انصاف کے اداروں کو مشکوک بنا دیا ہے۔ یہ اس ملک و قوم کی بد بختی رہی ہے کہ پچھلے جمہوری ادوار میں جس طرح قومی خزانے کو ’’پوری ایمانداری‘‘ سے لوٹا جاتا رہا، بیرون ملک اثاثے بنائے جاتے رہے اسی طرح عدالتیں بھی سستی کا مظاہر کرتی دکھائی دیں۔
اقتدار پر قابض رہنے والی یہ تینوں جماعتیں غریب کی خوشحالی کے صرف دعوے کرتی نظر آئی ہیں یہ قوم پچھلے کئی برس سے بہتر نظام زندگی کی منتظر ہے مگر بد قسمتی سے ہر دور میں اس قوم کو مہنگائی، بیروزگاری اور نئے ٹیکس کے تلے دبا دیا جاتا رہا ہے۔ آج ن لیگ، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف سمیت ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی ومذہبی جماعتیں مل کر اس قوم کو ایک بہتر آزاد نظام زندگی مہیا نہیں کر سکی ہیں، یہ جماعتیں اس قوم کو ایک بہتر شفاف الیکشن دینے میں ناکام رہی ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہ جماعتیں اپنے ووٹر کے مسائل کو بھی حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں، انتخابی اصلاحات کے ذریعے ووٹ کو عزت دلانے کے بجائے ووٹ کو عزت دو کا تماشا برپا کیے ہوئے ہیں اگر ان دونوں جماعتوں کے دامن صاف ہیں تو پھر کیوں احتساب سے فرار کی راہ تلاش کی جارہی ہے۔
کوئی دو رائے نہیں کہ اس ملک کو بے دردی کے ساتھ لوٹا گیا ہے اس ملک کے اداروں کو کرپشن کی نذر کر کے کمزور بنایا گیا اس ملک کی دو مخصوص جماعتیں ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے تین تین بار اس ملک پر حکمرانی کی دونوں جماعتوں کے اقتدار کی مدت بیس سال سے زائد رہی مگر یہ ملک وقوم کی حالت کو بہتر بنانے میں ہر طرح سے ناکام رہیں۔ آج ملک کو پانی، بجلی، گیس کے سنگین بحران کا سامنا ہے غور کریں کہ دونوں جماعتوں کے سابق وزرائے اعظم گیس بجلی کے اسکینڈل میں ملوث پائے جاتے ہیں اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے ادوار میں ایک دوسرے پر یہ کیس بنائے ہیں، آج یہ دونوں جماعتیں پانی بجلی گیس بحران کا ذمے دار موجود ہ حکومت کو ٹھیرا کر یہ ثابت کر رہی ہیں کہ ان کی نظر میں سیاست صرف الزام تراشی کا نام ہے، سیاست کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ یقینا موجودہ حکومت کے تین سال نے غریب عوام کی چیخیں نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر ہم میں سچ بولنے کی ہمت ہونی چاہیے اگر آزادی صحافت بھی جھوٹ کا راستہ اپنا لے گی تو پھر ضمیر فروش سیاستدانوں اور ہم میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔
یقینا موجودہ حکومت میں لاتعداد خامیاں اور نالائقیاں ہیں جس نے خان صاحب کی حکومت کو کمزور بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے یقینا احتساب اور انصاف کے عمل اور سزائوں ضمانتوں پر ہمارے تحفظات اپنی جگہ موجود ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جمہوریت کے اس دور حکومت میں ہم نے ملک کی لوٹی دولت کے ذریعے قیمتی اثاثے بنانے والوں کو قانون کی گرفت میں تو ضرور دیکھا مگر انصاف کے ادارے اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں شاید بہت دور ہیں یہ قوم اب ٹھوس شواہد کی موجودگی میں موثر شفاف انصاف کی منتظر ہے۔ اب یہ ذمے داری ملک کے اداروں کی ہے۔ اس کے ساتھ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ مل کر اس قوم کو بہتر اور موثر نظام مہیا کریں، ساتھ ہی انصاف کی فراہمی میں روکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے قانون میں بہتر اصلاحات کریں اس قوم کو موثر انتخابی اصلاحات کے ذریعے ایک شفاف الیکشن مہیا کریں تاکہ دھاندلی کا راگ قوم کو ہر بار سننا نہ پڑے۔