باجی یہ علینہ کی شادی کا دعوت نامہ ہے آئیں گی ناں ؟؟؟
” دو دن پہلے تو کارڈ دیا ہے ۔ ہم کوئی ایسے گرے پڑے ہیں جو ایسے ایمرجنسی بلاوے پر دوڑے چلے آئیں گے ۔”
” باجی وہ شادی کے ہزاروں کاموں کی بھاگ دوڑ میں ذرا دیر ہو گئی۔ “سجاد صاحب بڑی بہن کے سامنے گھگھیا کر بولے ۔
“دیکھیں گے” نجمہ بیگم نے نخوت سے بھائی کو جواب دیا۔
“اے بات سنو تم نے تو ندیم بھائی کی بیماری کی اطلاع تک دینا گوارا نہ کیا ۔ ہم کو تو بالکل ہی پرایا کردیا۔ ”
” نہیں بھائی وہ ان کی طبیعت اچانک ہی اتنی بگڑی کہ کچھ سمجھ ہی نہیں آيا” شہناز نے عین آئی سی یو کے دروازے پر بہن بہنوئی کی خفا صورتیں اور ترش لہجے میں کیے گئے شکوہ پر بوکھلا کر کہا۔ “رہنے دو جن کو اپنا سمجھتی تھیں انکو تو اطلاع کر ہی دی تھی۔”دوسری جانب سے جملہ داغا گیا اور شہناز جو پہلے ہی شوہر کے اچانک ہارٹ اٹیک پر پریشان تھی بس شکلیں دیکھ کر رہ گی۔
“راشد چچا رکیے گا کھانا کھا کر جائیے گا”باپ کے جنازے کو تازہ تازہ کندھا دیکر آئے عظیم نے رشتے کے چچا کو روکتے ہوئے کہا۔
“نہیں بھئی میت کے گھر میں کھانا کھانا حرام سمجھتے ہیں ہم “غم سے نڈھال عظیم جاتے ہوئے چچا کو تاسف سے دیکھتا رہ گیا
“خالہ امی مجھے اسکالر شپ ملی ہے”علی نے خوشى سے بڑی خالہ کو بتایا۔
“ہاں پتا چلا تھا – تمہارے پھوپھا ہیں ناں تمہارے کالج میں انہوں نے ہی کوشش کر کے دلوائی ہو گی۔”خالہ کی بات سن کر علی کی خوشی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی
“نہیں خالہ مجھے اچھے اکیڈمک ریکارڈ کی وجہ سے ملی”بچے نے گھبرا کر صفائی پیش کی۔
“رہنے دو”خالہ نے ایک طنزیہ سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
روز مرہ زندگی کی البم سے یہ ہمارے اپنے بدصورت رویوں کی چند تصاویر ہیں۔ کبھی ہم ان رویوں کا نشانہ بنتے ہیں اور کبھی خود دوسروں کو اس کا نشانہ بناتے ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ جب خود نشانے پر ہوں تو درد سے بلبلا جاتے ہیں لیکن جب یہ ہی رویہ خود کسی کے ساتھ اپنائیں تو احساس تک نہیں ہوتا ۔ سامنے والے کو موقع محل دیکھے بنا شرمندہ کر دینا، دفاعی پوزیشن میں لے آنا وقتی طور پر خوشی دے سکتا ہے لیکن یقین کریں آپکا یہ رویہ سامنے والے سے زیادہ خود آپ کو اور آپ کی شخصیت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ کڑواہٹ، منفیت، شکایتی انداز فکر اور اذیت پسندی ہماری ذات کا حصہ نامحسوس انداز میں بن جاتیں ہیں۔ نہ ہم کسی کی خوشی میں خوش ہو سکتے ہیں نہ کسی کے دکھ کو محسوس کر سکتے ہیں ۔
کوشش کریں کسی کی خوشی میں خوش نہیں ہو سکتے،کسی کے دکھ کو کم نہیں کر سکتے، کسی کی تکلیف میں مدد نہیں کرسکتے تو کم از کم اپنے الفاظ اور زبان سے کسی کی خوشی کرکری بھی نہ کریں- کسی کا دکھ مزید نہ بڑھائیں- کسی کی پریشانی کے وقت میں اس کو دفاعی جملے سوچنے اور اپنی صفائیاں پیش کرنے پر بھی مجبور نہ کریں۔
”گڑ نہیں دے سکتے تو کم از کم بات گڑ جیسی کریں۔ اس کا بھی اجر ہے “