سیکولر اور لبرل حلقوں میں بے چینی

440

امریکا اس وقت جس ذلّت سے دوچار ہے وہ دنیا کے تمام ان لوگوں کے لیے سبق آموز ہے جو لوگ سیکولر اور لبرل ازم پر یقین رکھتے ہیں یا ان کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ امریکا اپنی تاریخ کی بد ترین شکست پر مہر لگا کر اپنے زخموں سے رستے ہوئے خون کو چاٹتا ہوا فرار ہورہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ کمیونزم پورے طمطراق کے ساتھ پوری دنیا میں چھاتا جارہا تھا اور ایسا لگ رہا تھا یہ پوری دنیا کو اپنے رنگ میں رنگ دے گا۔ مگر اسی زمانے میں کچھ اہل بصیرت جن کو خدا نے مومنانہ بصیر ت سے نوازا تھا ان میں علامہ اقبال اور مولانا مودودی شامل تھے جنہوں نے اس دنیا کے مستقبل کو دیکھ لیا اور ایک ایسا پیغام دیا جو دنیا والوں کے لیے ناقابل یقین تھا، پٹھان کوٹ کی چھوٹی سی مسجد میں خطبہ جمعہ کے موقع پر مولانا مودودی نے کہا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ جب کمیونزم کو ماسکو میں پناہ نہ ملے گی اور سرمایہ دارانہ جمہوریت نیویارک اور واشنگٹن میں لرزہ براندام ہوگی۔ دنیا نے دیکھا گزشتہ چند سال پہلے جب لینن کے مجسمے کے گلے میں رسی ڈال کر اس کو چوراہے میں گھسیٹا گیا لیکن یہ بت جہاد افغانستان کے نتیجے میں پاش پاش ہوا پھر کمیونزم یا سرمادارانہ جمہوریت جس کا امام امریکا ہے، اس کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا لیکن آج ساری دنیا کے سامنے اس امام کی حالت یہ ہے کہ 2000 میں جب اس نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو اس وقت کے صدر جارج بش کا یہ دعویٰ تھا کہ چند دنوں میں افغانستان فتح کرلیا جائے گا اور وہ بھی بیالیس ممالک کی فوجوں کے ساتھ، مگر آج دنیا نے دیکھ لیا کہ ساٹھ ہزار کے لشکر نے ہر طرح کی مصیبتوں کے مقابلے میں پامردی دکھائی گیارہ سال میں پہاڑوں کے ان بیٹوں نے لفظ دہشت گردی کی ٹھیک ٹھیک تعریف متعیّن کر ڈالی۔ جب زلمے خلیل زاد امریکا کی طرف سے برادر ملاضعیف سے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور ہوئے۔ دنیا میں جنگوں کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جس فریق نے اپنے دشمن سے شکست کھائی وہی سامنے والے کے ساتھ مذاکرات کی میز پر امن کی بھیک مانگنے آیا ہے دوحہ کے مذاکرات اسی بات کا مظہر ہیں۔
آج یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ امریکا کے افغان کمانڈر انچیف افغانستان میں اپنی فوج کو دشمنوں کے درمیان چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ اور جاتے جاتے بلکہ بھاگتے ہوئے یہ کہہ گئے کہ آئندہ کبھی افغانستان نہیں آؤں گا۔ افغانستان کو ان دنوں شدید عدم استحکام کا سامنا ہے اس کے باعث افغانستان کی سلامتی کی صورتحال کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی ہے۔ اب کابل ائر پورٹ کی حفاظت امریکی فوج کرے گی جبکہ بگرام ائر پورٹ سے امریکی فوجی رات کے اندھیرے میں افغان فوج کے کمانڈر کو اطلاع دیے بغیر فرار ہوگئے ہیں۔ لیکن دوحہ سے جاری ہونے والے بیان میں طالبان نے کہا ہے کہ وہ ایک بھی غیر ملکی سپاہی کو افغانستان میں برداشت نہیں کریں گے اس صورت میں غیر ملکی فوجوں کو واپس بھیجنے کے لیے مزید تابوتوں کی ضرورت پڑے گی۔ افغانستان سے اس وقت اعلیٰ امریکی حکام اور ان کے حواری تیزی سے فرار ہورہے ہیں صدر اشرف غنی اور وزیر اعظم عبداللہ عبداللہ بھی ملک سے فرار ہوچکے ہیں اور ایک جہاز اعلیٰ امریکی وفاداروں کو کابل ائرپورٹ سے لے کر اڑان بھرنے کو تیار ہے۔
میدان جنگ کی گرد اب آہستہ آہستہ چھٹ رہی ہے اور دنیا کے سامنے صورت حال واضح ہورہی ہے اس ساری صورت حال میں سب سے زیادہ پیٹ میں مروڑ لبرل طبقے کے ہورہی ہے اور وہ بہت زیادہ پریشان نظر آرہا ہے وہ خود تو ذہنی انتشار کا شکار ہے مگر دوسروں کو بھی اسی کیفیت میں دیکھنا چاہتا ہے جیسا کہ ایک بیان میں ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ طاقت کے ذریعے مسلط کی گئی کسی بھی حکومت کو دنیا قبول نہیں کرے گی، آنیوالی حکومت سے اسی صورت تعاون کیا جائے گا جب وہ بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرے گی۔ امریکی محکمہ خارجہ کا بیان بہت ہی مضحکہ خیز ہے شاید ان کو اپنی ہی تاریخ سے کوئی واسطہ نہیں ہے اگر ان کو اپنی تاریخ کا مطالعہ کرنے کی فرصت ملے تو وہ خود تنہائی میں اپنے اس مزاحیہ بیان پر گھنٹوں ہنسیں گے۔ دنیا میں امریکا وہ واحد ملک ہے جو اپنی بنا کے اول روز سے دہشت گرد ہے اس کی بنیاد میں دس کروڑ ریڈ انڈین کی لاشیں ہیں جن کو نیلی آنکھوں والے گوروں نے صدیوں وحشیانہ تشدّد کے بعد قتل کرکے ان کو اقلیت میں تبدیل کردیا۔ اس کام کے لیے انہوں نے ریاستی وسائل کا استعمال بھی کیا اور اس کے لیے مختلف ادوار میں پارلیمنٹ قوانین بھی منظور کروائے ہیں۔ یہ تو تھا امریکا کا باطن لیکن اس کا اصل چہرہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے دنیا کے سامنے آیا جب اس نے بسے بسائے دو شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم حملہ کیا اس کے بعد ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تاحال جاری ہے اس کا امن اور دنیا میں جمہوریت کے قیام کے نام پر شمالی ویت نام، جنوبی کوریا، افغانستان، عراق، شام اور لیبیا پر براہ راست اور بالواسطہ جنگوں کا سلسلہ جاری ہے کروڑوں بے گناہ انسان اس کی درندگی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
امریکی ترجمان کا یہ کہنا کہ طاقت کے ذریعے مسلط کی گئی کسی بھی حکومت کو دنیا قبول نہیں کرے گی۔ یہ سوال خود امریکا کے لیے بھی ہے کہ کیا امریکا نے اپنے آپ کو ریڈ انڈین اور پوری دنیا میں مسلط کرنے کے لیے طاقت کا استعمال نہیں کیا؟ امریکا کا ماضی حال اس بات پر گواہ ہے کہ امریکا نے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ جو حکومت بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرتی ہے ساری دنیا اس کا احترام بھی کرتی ہے اور اس کے ساتھ تعاون بھی کرتی ہے مگر کیا امریکا نے بنیادی انسانی حقوق کا احترام کیا ہے؟ اس کا جواب امریکا کے وہ حملے ہیں جو اس نے افغانستان اور عراق میں کیے اور ان حملوں میں آبادیوں پر بمباری کی گئی جس میں ہزاروں اسکولوں اور اسپتالوں کو نشانہ بناکر لاکھوں بچّوں اور مریضوں کو موت کی نیند سلادیا گیا۔ امریکا کی پیدا کردہ جنگی صورتحال سے مائوں کی گود میں جن معصوم بچّوں نے بھوک سے دم توڑے ان کی صحیح تعداد کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ ان تمام مظالم اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتیں اتنی زیادہ ہے کہ چنگیز خان اور ہلاکو خان بھی ان کے سامنے بونے نظر آتے ہیں۔
صرف اسلام کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے جتنے انقلابات اس دنیا میں برپا کیے ان میں بنیادی انسانی حقوق کا لحاظ بھی کیا گیا اوران کا تحفظ کبھی کیا گیا ان انقلابات میں انسانی خون کے ضیاع سے بچنے کا مکمل اہتمام کیا گیا۔
آج بھی جو خبریں افغانستان سے آرہی ہیں ان میں یہ ایک نمایاں بات دیکھنے میں آرہی ہے کہ افغان صوبے، شہر اور ضلعے جن کا کنٹرول طالبان سنبھال رہے ہیں وہ صرف اپنے مقابلے پر آنے والوں ہی کی خبر لے رہے ہیں باقی تمام لوگوں کو امن حاصل ہے۔ اور یہ جو کہا جارہا ہے کہ افغانستان کے حالات خراب ہونے والے ہیں وہاں امریکا اور اس کے حواریوں کے فرار ہونے کے بعد خانہ جنگی کی صورتحال ہوگی بلکہ معاملہ اس کے الٹ ہے افغانستان میں اب اکیس سال کے بعد دوبارہ امن قائم ہو رہا ہے، دوبارہ اسلامی شرعی عدالتیں قائم ہورہی ہیں جن سے لوگوں کو انصاف مل رہا ہے۔ اس ساری صورتحال سے دنیا کے تمام لبرل اور دین بیزار طبقے کے پیٹ میں بری طرح مروڑیں اور ٹیسیں اٹھ رہی ہیں اور وہ طالبان سے درخواست کررہے ہیں کہ وہ اپنی حکومت مل جل کربنائیں۔