نقل کا بڑھتا ہوا رجحان

707

کچھ برائیاں ایسی سنگین نوعیت کی ہوتی ہیں کہ ان میں کئی برائیا ں جمع ہوجاتی ہیں۔ ان برائیوں سے معاشرے میں فتنے جنم لیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں معاشرہ فساد سے بھر جاتا ہے۔ اور معاشر ے کا ہر فرد اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ دورِ حاضر میں ایک برائی ہمارے ملک میں تعلیم اداروں میں نقل کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ اس کی ابتداء تو طالب علم سے ہی ہوئی ہے مگر بغور دیکھا جائے تو اس کی جڑیں والدین کی ناقص تربیت سے جاکر ملتی ہیں۔
جب تعلیم کو نمبر اور ڈگری کے حصول تک محدود کردیا جائے اور قابلیت اور مہارت کو نظر انداز کردیا جائے تو طالب علم کے ذہن میں ایک ہی بات بیٹھ جاتی ہے یا والدین بٹھاتے ہیں کہ اگر نمبر کم ہوئے تو اعلیٰ تعلیمی ادارے میں داخلہ نہیں ملے گا اور ڈگری نہیں مل سکے گی۔ اب طالب علم کی تمام تر محنت اور وقت صرف اور صرف نمبروں کی حصول میں صرف ہوتا ہے۔ اب طالب علم چاہے کیسے طریقے استعمال کرے۔۔۔ اس کو مطلوبہ نمبر حاصل کرنے کی دھن سوار ہوتی ہے۔ یہ با ت صرف یہاں تک محدود نہیں رہتی بلکہ والدین بھی اس شامل ہوجاتے ہیں۔ یعنی نقل کرانے میں اپنے ہونہاروں کے ساتھ ہوتے ہیں اور انہیں سہولتیں فراہم کرنے کے لیے امتحانی مراکز تک جا پہنچتے ہیں۔ اور سونے پر سہاگہ جب سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہوتو کیا بات۔۔۔ اس تیزی سے بڑھتے ہوئے نقل کے رجحان نے معیارِ تعلیم کا جنازہ نکال کررکھ دیا ہے۔ کیا میڑک کیا انٹر اور کیا اعلیٰ تعلیم تمام کے تمام ہی اس برائی میں مبتلا ہیں۔ اس خرابی کے نتیجے میں ذہین اور با صلاحیت طلبہ کا استیصال ہوتا ہے میرٹ کا قتل ہوتا ہے۔ اس ایک برائی کے اندر سب سے بڑی برائی جھوٹ، بددیانتی، ظلم شامل ہیں۔ یہ کبیرہ درجے کے گناہ ہیں جن کو آج کل سمجھا نہیں جارہا۔یا پھر نظر انداز کیا جاتاہے۔
ہم جان بوجھ کر اپنے آشیانے کو آگ لگانے کی کوشش کررہے ہیں ذرا اندازہ کیجیے کہ جب اپنے علاج کے سلسلے ہم خود ہی کسی ایسے ہی ڈاکٹر کے ہتھے چڑھ گئے تو کیا ہوگا؟ اور جب ایسے ہی کسی انجینئر سے ہم پل، سڑکیں ڈیم اور عمارتیں بنوائیں تو ایسی تباہی کے ذمے دار کون لوگ ہوں گے؟ جو طلبہ وطالبات آج کل ہونے والے امتحانات میں نقل کررہے ہیں، جو والدین اپنے بچوں کو نقل کی سہولت فراہم کرنے کے لیے رشوت دے رہے ہیں اور وہ اسکول کا عملہ اور انتظامیہ جو اس قبیح فعل میں ملوث ہے وہ بائیس کروڑ عوام کا مجرم ہے۔ جو قوم کی اس امانت کو اپنی ناجائز آمدنی کی خاطر تباہ و برباد کررہا ہے۔ یہ کرپشن اتنا بڑا ہے کہ جس کے نقصان کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔
اس طرح جب افراد اعلیٰ ڈگریاں لے کر اداروں میں ملک و قوم کی خدمت کرنے کے لیے اعلیٰ عہدوں پر اپنی ذمے داریاں ادا کریں گے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کیا ملک و قوم کی خدمت کریں گے، بلکہ ملک و قوم کو ان خدمت کرنا پڑے گی۔ اس طرح کے افراد صرف چھوٹی نوکریوں اور ذمے داریوں پر نہیں بلکہ اب تو خیر سے صوبائی، قومی اسمبلیوں اور سینیٹ کی نشستوں پر براجمان ہیں اور ہر آن کیا کیا گل کھلا رہے ہیں صوبائی اور قومی اسمبلیاں دنگل کا منظر پیش کررہی ہیں ارکان ایک دوسرے کو فحش گالیوں سے نواز رہے ہیں بلکہ بات یہیں تک نہیں رکی ایک صاحب نے تو یہ تک کہ دیا کہ گالیاں ہمارے کلچر کا حصّہ ہے۔
جہاں یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے ہونہاروں کی تربیت کی طرف توجہ دیں ایمانداری اور دیانتداری کو ان کی شخصیت کا حصّہ بنانے کی پوری کوشش کریں اس کے ساتھ ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ اجتماعی خرابیاں اجتماعی کوششوں سے دور ہوتی ہیں۔ لہٰذا ہم سب کو اس پورے نظام کی تبدیلی کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی نظام کے اندر وہ خرابی کہ جس کا ذکر سطور بالا میں کیا گیا ہے تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔ اسی تعفّن زدہ نہر کے پانی سے یہ ببول کے درخت اور جھاڑیاں سیراب ہوکر نشونما پارہی ہیں۔
اسلامی نظام ہی وہ نظام ہے کہ جس میں مکمل رہنمائی موجود ہے اس نظام کی برکتیں پوری دنیا کو ماضی میں منّور کررہی تھیں اور آج بھی اس کے اندر ہی وہ صلاحیت موجود ہے کہ معاشرے کی تمام خرابیاں دور کرسکتا ہے اور پوری دنیا کو منور کر سکتا ہے اور یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ: ’’اور اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان کے لیے زمین اور آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘۔ (سورہ اعراف)