اکثریت جسمانی صحت اور ذہنی صحت میں تفریق نہیں کرپاتی جبکہ ایک طبقہ ان دونوں کو ایک ہی سمجھتا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
لوگ ذہنی بیماریوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور لوگوں کا یہی رویہ ذہنی صحت کو نظرانداز کیے جانے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ مکمل طور پر فٹ ہونے کے لیے ذہنی طور پر بھی فٹ ہونا اولین شرط ہے۔
جب لوگ اپنی یا کسی دوسرے کی ذہنی حالت کو اہمیت نہیں دیتے یا دینا نہیں چاہتے تو اس کے کئی منفی نتائج سامنے آتے ہیں۔
مثال کے طور پر ، آپ کینسر کے مریض کو کبھی بھی یہ نہیں کہیں گے کہ یہ سب تمہارے ذہن کا کھیل ہے ایسا کچھ بھی نہیں، زیادہ سوچنا بند کردو۔ جبکہ یہی جملہ آپ ڈپریشن میں مبتلا شخص کو بول دیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں ذہنی امراض کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کرنا چاہیے جیسے جسمانی بیماریوں کے ساتھ کرتے ہیں۔
والدین ہمیشہ اپنے بچوں کی جسمانی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں۔ وہ انہیں غذائیت سے بھرپور کھانا کھلاتے ہیں اور ہمیشہ ان کے زخموں کی فوری مرہم پٹی کرتے ہیں۔ لیکن اپنے بچے کی خراب ہوتی ذہنی صحت پر اکثر والدین توجہ ہی نہیں دیتے کیونکہ ان کے نزدیک یہ معاملہ غیر اہم ہوتا ہے اور اس کی واحد وجہ لوگوں میں شعور کی کمی ہے۔
یہاں تک کہ بڑے لوگوں کو بھی اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ اُن کا کوئی ہمعصر کس ذہنی دباؤ سے گزر رہا ہے۔
ہمیں ذہنی بیماریوں یا ذہنی حالت کی علامتوں کو پہچاننے کے قابل ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ضروری نہیں کہ ہر ہنسنے والا شخص خوش حال انسان بھی ہو۔
خودکشی کا اقدام ذہن کی صحت پر منحصر ہوتا ہے، اگر ایک انسان کی ذہنی صحت سہی نہیں تو جسمانی صحت بھلے کتنی اچھی ہو، انسان موت کے منہ میں جاسکتا ہے اور ذہنی حالت سہی ہوگی تو جسمانی طور پر کمزور انسان بھی اپنی زندگی کو بھرپور طریقے سے جی سکتا ہے۔