ارشادِ نبویؐ ہے کہ ’’یومِ نحر (قربانی کا دن) کو اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل قربانی ہے‘‘۔ (ترمذی، عن عائشہؓ) قربانی کا تصور تمام آسمانی مذاہب میں پایا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں سیدنا آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کے واقعے سے یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسانیت کی ابتدا میں ہی قربانی بطور عبادت زندگی کا حصہ بنا دی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور (اے محمدؐ!) ان کو آدمؑ کے دو بیٹوں (ہابیل اور قابیل) کے حالات (جو بالکل) سچے (ہیں) پڑھ کر سنا دو کہ جب ان دونوں نے خدا (کی جناب میں) کچھ نیازیں چڑھائیں تو ایک کی نیاز تو قبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔ (تب قابیل، ہابیل سے) کہنے لگا کہ میں تجھے قتل کروںگا۔ اس نے کہا کہ خدا پرہیزگاروں ہی کی (نیاز) قبول فرمایا کرتا ہے‘‘۔ (المائدہ:27 )
قرآن پاک کی اس آیت سے آج بھی آپ یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ قربانی کی قبولیت کا ربانی پیمانہ کیا ہے۔ جانور میں کوئی نقص نہ ہو، یہ تو ہر مسلمان کو معلوم ہے، مگر نیت کا اخلاص، رزق روزی اور ذرائع آمدنی کا حلال ہونا اور سب سے بڑھ کر تقویٰ کی صفت قبولیت قربانی کا معیار اصلی ہے۔ قرآن پاک میں قربانی کا تفصیلی ذکر سورۂ الحج میں ہے اور وہاں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے اسی مضمون پر پورے تذکرۂ قربانی کا اختتام فرمایا ہے۔ ارشاد باری ہے: ’’اور ان (جانوروں) کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اس نے ان کو تمہارے لیے اس طرح مسخر کیا ہے، تاکہ اس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر بلند کرو۔ اور اے نبیؐ! بشارت دے دیں نیکوکار لوگوں کو‘‘۔ (الحج: 37)
قربانی کے لفظ سے واضح ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے اور اس کے نزدیک جانے کا ذریعہ ہے۔ قربانی کی مختلف صورتیں اور درجات ہیں۔ ان میں پہلا درجہ خواہشات کی قربانی ہے اور آخری درجہ جان کی قربانی ہے۔ اس کے درمیان میں مال، اوقات اور صلاحیتوں کی قربانی کے مراحل آتے ہیں، مگر لفظ قربانی جب مطلق یعنی اکیلا بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ قربانی ہوتی ہے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد کے طور پر عیدالاضحی میں جانور ذبح کرنے کی صورت میں دی جاتی ہے۔
ابراہیم علیہ السلام کو اپنا اکلوتا لخت ِجگر قربان کرنے کا حکم ملا تھا۔ سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو ان کے والد سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم پر قربانی کے لیے پیش کردیا۔ اس وقت آپ کے یہی اکلوتے بیٹے تھے۔ اس پورے واقعے کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اتنے پیار بھرے انداز میں کیا ہے کہ متعلقہ آیات پڑھ کر بندۂ مومن کا ایمان تازہ ہوتا ہے اور وہ جھوم اٹھتا ہے۔ جب خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے اکلوتے بیٹے کے گلے پر چھری رکھ دی اور اللہ کے حکم کو باپ بیٹے نے عملی جامہ پہنادیا تو اللہ تعالیٰ نے پکار کرکہا: اور ہم نے ندا دی کہ ’’اے ابراہیمؑ! تو نے خواب سچ کردکھایا۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا‘‘۔ (الصافات: 104-107)
یہ قربانی جنت سے بھیجا گیا‘ سینگوں والا موٹا تازہ مینڈھا تھا‘ جو جبریلؑ لے کر آئے تھے۔ اس مینڈھے کے سینگ خانہ کعبہ میں بطور ِیادگار وتبرک آویزاں کیے گئے تھے۔ نبی پا کؐ نے جب خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک صاف کیا تو ان سینگوں کو محفوظ رکھا گیا۔ صحابہ کا بیان ہے کہ یہ سینگ سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ کے دورِ خلافت تک اسی طرح خانہ کعبہ میں موجود ومحفوظ رہے۔ شقی القلب حجاج بن یوسف کے حملے میں منجنیقوں کے ساتھ سنگ باری کے دوران خانہ کعبہ کی عمارت کو نقصان پہنچا تو یہ ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گئے۔ آپؐ بھی اونٹوں اور مینڈھوں کی قربانی دیا کرتے تھے۔ یہ مینڈھے بھی سینگوں والے ہوتے تھے۔
نبی اکرمؐ نے ہجرت کے بعد اپنی مدنی زندگی میں قربانی کا ہرسال باقاعدگی سے اہتمام کیا۔ اس باب میں آپؐ کی بہت سی احادیث صحاحِ ستہ کے اندر موجود ہیں۔ قربانی کی اہمیت اور ثواب واجر کے حوالے سے یہاں ایک حدیث ملاحظہ فرمائیے: سیدنا زید بن ارقمؓ کی روایت ہے کہ اصحابِ رسول نے پوچھا: یارسول اللہؐ! قربانی کی حقیقت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ تمہارے باپ ابراہیمؑ کی سنت ہے۔ صحابہؓ نے پوچھا: یارسول اللہ! اس سے ہمیں کیا ملتا ہے؟ آپ نے فرمایا: جانور کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ملتی ہے۔ پوچھا: بھیڑ اور دنبے کے بالوں (صوف) کا کیا حکم ہے؟ تو فرمایا: اس کے بھی ہر بال کے بدلے میں نیکی لکھی جاتی ہے۔ (ابن ماجہ‘ کتاب الاضاحی‘ باب ثواب الاضحی) اس قربانی کے بارے میں دنیا کی ہر زبان میں مختلف چھوٹی بڑی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ یہ ایک عبادت ہے، جس کے فضائل واحکام تو حدیث وفقہ کی کتابوں میں تفصیل سے ملتے ہیں؛ البتہ عصر حاضر میں مختلف کے قسم کے فاسد خیالات اور مخصوص عزائم رکھنے والے عناصر جو دین کا حقیقی تصور بدل دینے کے لیے حیلہ سازیاں اور چالیں چلتے ہیں، قربانی پر مختلف النوع اعتراضات کرتے رہتے ہیں۔ ان اعتراضات کا علمائے حق نے کافی وشافی جواب دیا ہے۔ اس موضوع پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا کتابچہ مسئلہ قربانی نام نہاد اسکالرز کے روپ میں ان منحرفین کے تمام لغو اعتراضات کا مسکت اور شافی جواب ہے۔
آج کل بھی بہت سے نام نہاد مجتہدین اپنی ذاتی رائے سے دین کی وہ تاویلات پیش کرتے ہیں، جو قرآن وسنت سے بالکل متضاد ہیں۔ قربانی کے بارے میں بھی بہت نازیبا الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے جس زمانے میں یہ کتابچہ لکھا اس دور کے منحرفین اور موجودہ زمانے کے مغرب زدہ طبقات کی فکر ایک ہی ہے۔ مولانا مودودی نے منکرین حدیث کی تحریروں کا جواب دیتے ہوئے ان کے اقتباسات نقل فرمائے جو یوں ہیں: ’’قربانی کی رسم تمام دنیا کی وحشی اور مَدَنی قوموں میں تھی۔ آج سوائے مسلمانوں کے کوئی اس کو ادا نہیں کرتا۔ یہ کیونکر ضروری ہوگیا کہ غیرحاجی خواہ مخواہ اس بے محل اور مسرفانہ رسم میں حصہ لیں۔
یہ روپیہ جو بکرے کی گردن پر چھری پھیرنے اور اسے زمین میں گاڑدینے کے لیے صرف کیا جاتا ہے، قومی اداروں کو ملنا چاہیے۔ وہ اس روپے سے ہر سال ایک عظیم الشان تجارتی بینک کھول سکتے ہیں، قرآن حکیم اور دوسرے علوم کی توسیع واشاعت کرسکتے ہیں، اعتقادات واخلاق کی اصلاح کرسکتے ہیں، بیواؤں اور ناداروں کی مدد کرسکتے ہیں، اور ہزاروں نیکی کے کام کرسکتے ہیں؛ بشرطیکہ تقلید کے جال سے آزاد ہوجائیں اور فضول بلکہ مْضر رسوم کو چھوڑ دیں‘‘۔
اندازہ کیجیے کہ قرآن وسنت کے محکم اور مسلّمہ احکام کی موجودگی میں قربانی جیسی عبادت کے خلاف کس قدر بدبودار زبان استعمال کی گئی ہے۔ اس کے جواب میں مولانا تحریر فرماتے ہیں: ’’یہ قرآن سے کھلا ہوا معارضہ نہیں تو اور کیا ہے؟ قرآن حکیم ایک چیز کا حکم دیتا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ پہلے اس کے عقلی وتجربی فوائد پر روشنی ڈالی جائے۔ قرآن ایک چیز کے متعلق کہتا ہے کہ لَکْم فِیہَا خَیر (تمہارے لیے اس میں بھلائی ہے) اور آپ اسے ایک فضول مسرفانہ رسم قرار دیتے ہیں۔ قرآن ایک چیز کو شعائراللہ میں شمار کرتا ہے اور خبردیتا ہے کہ اللہ نے اس کو مقرر کیا ہے، مگر آپ اس کے مقابلے میں مغربی مستشرقین کی یہ تحقیق پیش فرماتے ہیں کہ یہ عہدِ جاہلیت کی ایک رسم تھی، جس کو آج صرف مسلمانوں نے اختیار کر رکھا ہے۔
بسوخت عقل ز حیرت کہ ایں چہ ابوالعجبی است
قرآن پر ایمان رکھنے کا دعویٰ اور پھر قرآن کے مقابلے میں یہ جرأت! اگر ان دونوں کا اجتماع ممکن ہے تو ماننا پڑے گا کہ وجودِ شئے اور عدمِ شئے کا اجتماع بھی ممکن ہے۔
آج آپ کے اپنے ملک میں لاکھوں اللہ کے بندے ایسے ہیں‘ جنہیں ہفتوں اور مہینوں اچھی اور قوت بخش غذا نصیب نہیں ہوتی۔ کیا ان کو یہ صدقہ اور قربانی اور نْسک کے ذریعے سے گوشت بہم پہنچانا آپ کی رائے میں اصولِ معیشت کے خلاف ہے؟ لاکھوں انسان اور گلہ بان ہیں، جو سال بھر تک جانور پالتے ہیں اور بقر عید کے موقع پر ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کیا ان کی روزی کا دروازہ بندکرنا آپ کے نزدیک بے روزگاروں کو روزگار مہیا کرنا ہے؟ ہزارہا غریب جن کو قربانی کی کھالیں مل جاتی ہیں اور ہزارہا قصائی ہیں جن کو ذبح کرنے کی اجرت مل جاتی ہے۔ کیا یہ سب آپ کی قوم سے خارج ہیں کہ آپ ان کی رزق رسانی کو فضول، بلکہ مضر اور داخلِ اسراف سمجھتے ہیں‘ پھر یہ کیا معاملہ ہے کہ آپ کو تمام قومی ضروریات اور سارے فوائد ومنافع صرف اسی وقت یاد آتے ہیں، جب خدا کے کسی حکم کی پابندی میں روپیہ صرف ہو رہا ہو؟ گویا کہ بینکوں کا قیام اور قومی ادارات کا فروغ اور اعتقاد واخلاق کی اصلاح اور یتیموں اور بیواؤں کی پرورش کا سارا کام صرف قربانی ہی کی وجہ سے رْکا پڑا ہے۔ ادھر یہ بند ہوئی اور اْدھر قومی اداروں پر روپیہ برسنا شروع ہوجائے گا۔ (قربانی کی شرعی حیثیت از مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی‘ ص 17-18)
الحمدللہ ان قلیل منحرفین کی ریشہ دوانیاں دم توڑ چکی ہیں اور امت اس بات پر یک سو ہے کہ سنتِ مطہرہ کے مطابق، وہ بڑے ذوق وشوق اور فراخ دلی سے قربانی کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس موقع پر ہر غریب وناتواں بھی گوشت کھانے کے قابل ہوجاتا ہے۔