وفاقی بجٹ کے اثرات اور مہنگائی کی لہر

362

حکومت کی جانب سے تو قومی معیشت میں اپنی کامرانیوں کے دعوئوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے، ملکی معیشت کے استحکام اور شرح نمو میں اضافہ بیان کیا جارہا ہے۔ یہ نوید بھی سنائی جارہی ہے کہ کٹھن وقت ختم ہوچکا ہے، حکومت کے باقی دو برس میں اب ملک ترقی و خوش حالی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ وزرا و مشیروں کے بیانات اور دعوے سن کر فطری طور پر عوام کی غربت اور مہنگائی میں ریلیف کے حوالے سے آنے والے میزانیوں کے ساتھ توقعات وابستہ پیدا ہوئیں۔ جبکہ حکومتی دعووں نے ان توقعات کو مہمیز لگائی، وفاقی بجٹ کو عوام دوست کہا گیا۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان اکثرو بیش تر اپنے بیانات میں مہنگائی پر قابو پانے اور ملکی معیشت کی بہتری کی نوید عوام کو سناتے رہتے ہیں۔ حکومتی دعوے اپنی جگہ لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی داستان سنا رہے ہیں۔ ملکی معاشی ترقی کے موجودہ مالی سال میں تقریباً چار فی صد کی رفتار سے بڑھنے کا دعویٰ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب تحریک انصاف کی حکومت کو اپنے سیاسی مخالفین کی جانب سے ملکی معیشت تباہ کرنے کے الزامات کا سامنا ہے۔ پاکستان میں بیوروکریسی کسی بھی حکومت کو خوش کرنے کے لیے اس قسم کی خدمات فراہم کرنے پر آمادہ رہتی ہے اور سیاسی لیڈر اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے لیے انہیں استعمال کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ اس بارے میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں تمام شعبوں کی پیداواری صلاحیت کا سالانہ سروے نہیں کیا جاتا بلکہ بعض شعبوں میں تو دس سال سے کوئی سروے نہیں ہوا۔ اس صورت میں سرکاری اعداد وشمار تیار کرنے کے لیے متعلقہ شعبہ کی پیداواری صلاحیت میں سالانہ ممکنہ اضافے کا تخمینہ لگا کر اوسط نکالی جاتی ہے اور اعداد وشمار میں شامل کرلیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ طریقہ حقیقی نہیں بلکہ جعلی ہوتا ہے جس سے کسی ملک کی معاشی صحت کا درست اندازہ نہیں کیا جاسکا۔
مہنگائی کی شرح ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ پٹرول، بجلی، گیس اور اشیائے خور ونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اب وفاقی بجٹ کے آفٹر شاکس آنا شروع ہوگئے ہیں اور موجودہ بجٹ سابقہ میزانیوں کی طرح اعداد وشمار کا گورکھ دھندہ ہی نظر آرہا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق بجٹ میں مروجہ ٹیکس بڑھائے گئے ہیں اور نئے ٹیکسوں کی بھرمار نظر آرہی ہے اور اس کے برعکس تنخواہ دار، تاجر اور مزدور طبقات کو اپنے لیے ریلیف کے بجائے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اور اب بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے جو عوامی اضطراب بڑھانے کا موجب بن سکتا ہے۔ اسی طرح اسٹیٹ بینک کی سہ ماہی رپورٹ بھی اقتصادی ترقی کے معاملہ میں کوئی زیادہ حوصلہ افزا نہیں جس میں مہنگائی 9 فی صد اور بجٹ خسارہ سات اعشاریہ پانچ فی صد تک رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔ جس کی بنیاد پر اسے عوام دوست بجٹ تو نہیں کہا جاسکتا جبکہ مہنگائی کے حوالے سے وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ بھی تشویش ناک ہے جس کے بقول ملک میں ایک سال کے دوران مہنگائی کے طوفان اٹھے ہیں اور مہنگائی کی شرح دس اعشاریہ 87 فی صد پر جا پہنچی ہے۔ انسانی حقوق کمیشن نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ’’کورونا وائرس نے ملک میں موجود عدم مساوات میں اضافہ کیا ہے جس کے باعث لاکھوں غیرمحفوظ افراد پر روزگار سے محرومی کا خطرہ منڈلا رہا ہے‘‘۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب جہاں بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے وہیں سماجی اور نفسیاتی مسائل اور جرائم کی شرح بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
افراطِ زر کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے سامان اور خدمات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ افراطِ زر کی پریشانی اس وقت پید اہوتی ہے جب ہمیں غیرمتوقع مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو لوگوں کی آمدنی سے مناسبت نہیں رکھتا ہے۔ معیشت کو آسانی سے چلانے کے لیے مرکزی بینک افراط زر کو محدود کرنے اور افراط سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ افراطِ زر وہ شرح ہے جس پر اشیاء اور خدمات کی قیمتوں کی عمومی سطح میں اضافہ ہورہا ہے اور اس کے نتیجے میں کرنسی کی قوتِ خرید کم ہورہی ہے۔ اگر سامان کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ آمدنی میں اضافہ نہیں ہوتا ہے تو ہر ایک کی قوت خرید مؤثر طریقے سے کم ہوجاتی ہے، جس کے نتیجے میں معیشت سست یا مستحکم ہوسکتی ہے۔ باٹم لائن یہ کہ سب سے زیادہ متاثر نچلا طبقہ ہے جو کرائے کے گھروں میں رہائش پزیر ہے۔ گزشتہ دس سال سے مکانوں اور دکانوں کے بڑھتے ہوئے کرائے بھی مہنگائی میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں جن کو کسی بھی حکومت نے کنٹرول کرنے کی کبھی نہ تو کوشش کی نہ ہی اس ضمن میں کبھی قانون سازی عمل میں آئی۔