تہران/دوحا/کابل/اسلام آباد( مانیٹرنگ ڈیسک+ صباح نیوز+آن لائن+اے پی پی) افغان حکومت کے ایک وفد نے ایرانی دارالحکومت تہران میں طالبان کے نمائندوں سے ملاقات کی ہے۔ یہ بات ایرانی وزارت خارجہ کی طرف سے بتائی گئی ہے۔یہ ملاقات ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے جب امریکا اور نیٹو فورسز کی افغانستان سے واپسی کے موقع پر طالبان کی طرف سے افغانستان میں کارروائیاں اپنے عروج پر ہیں۔ افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کی اس بات چیت کے آغاز پر ایرانی وزیر خارجہ جاوید ظریف نے امریکا کی افغانستان سے واپسی کا خیر مقدم کیا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ افغانستان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے افغان عوام اور رہنماؤں کو مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔قبل ازیںطالبان نمائندوںنے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف اور دیگر حکومتی ارکان سے اہم ملاقات کی جس میں افغانستان کی تازہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔دوحا میں موجود طالبان مذاکراتی ٹیم کے اہم رکن سہیل شاہین نے واٹس ایپ پر پاکستانی صحافیوں کے سوال کے جواب میں کہا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ عبداللہ عبداللہ سمیت ا فغانستان کے اہم سیاستدان دوحا آئیں اور انٹرا افغان بات چیت میں حصہ لیں تاکہ جلد از جلد افغان مسئلے کا پر امن حل نکالا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری طرف سے بات چیت کا عمل رکا نہیں تاہم سست ضرور ہے ۔سہیل شاہین نے تصدیق کی ہے کہطالبان کا اعلیٰ سطح کا وفد شیر محمد اے اسٹینکزئی کی سربراہی میں ایران کے دورے پر ہے۔ دوسری جانب افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی جاری ہے، طالبان افغان صوبے بادغیس کے دارالحکومت قلعہ نو پر حملہ کرکے اس میں داخل ہوگئے ہیں۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق صوبہ بادغیس کے دارالحکومت قلعہ نو میں طالبان اور افغان فورسز کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے۔گورنر بادغیس کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ صوبائی دارالحکومت قلعہ نو کے تمام اضلاع پر اب طالبان کا قبضہ ہے۔ادھر پاکستان نے کہا ہے کہ افغانستان میں دیرپا امن کے لیے گفت وشنید کے سواکوئی دوسرا راستہ نہیں ہے ،امریکا امن مذاکرات میں بیٹھے نہ بیٹھے،افغانوں کو اس میں بیٹھنا ہے۔اپنے بیان وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان عوام امن چاہتے ہیں،طالبان کو بھی یہ سوچنا چاہیے ہے کہ وہ دنیا سے لاتعلق نہیں رہ سکتے اگر انہوں نے دنیا میں اپنے عزت و وقار میں اضافہ کرنا ہے تو انہیں سب سے مل کررہنا ہوگا ۔اگر انہوں نے دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو پھر انہیں تشدد کا راستہ ترک کرنا اور امن کے راستے کو اپنانا ہوگا۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم رائے دے سکتے ہیں فیصلہ نہیں، فیصلہ انہیں کرنا ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ شنید ہے کہ طالبان جلد امن تجاویز پیش کرنے والے ہیں، اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ایک اچھی پیش رفت ہوگی ۔میرے خیال میں دوحا مذاکرات میں بھی پر امید جھلک دکھائی دے رہی ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ کوئی طاقت عوام کی رائے کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی،رائے عامہ کو ہموار کرنا پڑتا ہے جس کو بھی حکمرانی کرنی ہے اگر وہ عوامی رائے سے لاتعلق ہے تو وہ حکمرانی دیرپا نہیں ہوگی۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جو فیصلہ افغان عوام کریں گے ہم قبول کریںگے اور تعاون کریں گے، ہم افغانستان میں امن اور عوام کی خوشحالی چاہتے ہیں اور افغانستان کے راستے وسطی ایشیا تک رسائی چاہتے ہیں۔