کراچی (رپورٹ: محمد علی فاروق) پاکستان میں نام نہاد جمہوریت کے نام پر دوڑ یں لگی ہوئی ہیں‘ قائد اعظم کی جلد رحلت بھی اسلامی نظام کے نفاذ میں رکاوٹ بنی‘ ملک میںتماشا جمہوریت اور مارشل لا کے ذریعے انگریزوں کے پروردہ حکمران طبقے نے اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے ‘بین الاقوامی اور مقامی اشرافیہ اسلامی نظام کو نہ تو سمجھتی ہے اور نہ ہی پسند کرتی ہے بلکہ اپنی بقا کے لیے بھی خطرہ محسوس کرتی ہے ‘ اس طبقے نے اسلامی نظام کو ہائی جیک کر لیا جنہیں قائد اعظم نے اپنی جیب کے کھوٹے سکے بھی قرار دیا‘ اقتدار میں کھلے وچھپے قبضے، جمہوریت پر کھلی و چھپی بالا دستی اور دھاندلی نے ملک کو تباہی کے اندھیروں میں دھکیل دیا‘ اسلامی نظام حیات کے تصور کو زندہ کر نے والے عالم اسلام کے مفکر سید ابواعلی مودودی کو پھانسی کی سزا سنائی گئی‘ فاطمہ جناح بھی غدار قرار پائیں‘ قرار دار مقاصد کی بنیا د پر پاکستان کی آئین سازی نہ ہوسکی‘ کسی بھی ملک کا نظام تعلیم اس کی نظریاتی بنیادوں کو مضبوط کرتا ہے‘ ہمارے ہاں نظام تعلیم کا بیڑہ غرق کر دیا گیا‘ پاکستان کو اسلامی اور آزاد بنے نہ دیا گیا‘ قانون پر عمل درآمد سے ہی اسلامی پاکستان اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر اسامہ بن رضی، فروغ اسلام فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر مولانا عطا اللہ عبدالرؤف اور جامعہ کراچی شیخ زید اسلامک سینٹر کی پروفیسر جہاں آرا لطفی نے جسارت سے خصوصی گفتگو میں کیا۔ اسامہ بن رضی نے کہا کہ پاکستان کے اسلامی بنے کا مطلب یہاں کلمہ لاالہ الاللہ محمد الرسول اللہ کی حکمرانی کا قیام تھا ناکہ مسلمانوں کی یا مسلم قومیت کی حکمرانی تھی‘ اسلامی پاکستان میں انگریزوں اور ان کے وفاداروںکا اقتدار و نظام زندگی سے مکمل خاتمہ ہو نا تھا یعنی اقتدار پر حق صرف اللہ کا ہے اور اللہ کے علاوہ کسی فرد ، گروہ ،طبقے یا ادارے کو یہ حق حاصل نہیںہے کہ وہ اس ملک اور اس کے عوام پر اپنی حق حکمرانی جمائے لیکن انگریزوں کے گٹھ جوڑ سے پاکستان کی آزادی اور اس کے اسلامی بنے کے خلاف شروع سے ہی یہ واردات ہوئی کہ پاکستان کے اقتدار پر انگریزوںکے پٹھو ، بیوروکریسی اور اس کے وفادار جاگیر داروں نے قبضہ کرلیا ،اس طبقے کو قائد اعظم نے بھی اپنی جیب کے کھوٹے سکے قرار دیا تھا ، انہوں نے کہا کہ قائد اعظم ابتدا میں ہی وفات پاگئے ، لیاقت علی خان شہید کر دیے گئے ‘ شروع میںہی 7 حکومتیں تبدیل ہوئیںاور پھر ایوب خان نے مارشل لا کے ذریعے اقتدار پر قبضہ جمالیا ، جاگیردار ،سول بیوروکریسی اور نوخیز سرمایہ دار اس کے جونیئر شریک اقتدار بن گئے جس کے بعد فاطمہ جناح بھی غدار قرارپائیں‘انتخابی دھاندلی کے ذریعے انہیں صدارتی الیکشن میں ہرا دیا گیا ‘ اسلامی نظام حیات کے تصور کو زندہ کر نے والے عالم اسلام کے مفکر سید ابواعلی مودودی کو پھانسی کی سزا سنائی گئی‘ قرار دار مقاصد کی بنیا د پر پاکستان کی آئین سازی نہ ہوسکی‘ ملک دولخت ہوگیایا کر دیا گیا ‘74سال سے ملک میں تماشا جمہوریت اور مارشل لا کے ذریعے انگریزوں کے پروردہ حکمران طبقے نے اپنی اجارہ داری قائم کرلی‘ یہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستان میں عوام اسی حکمران طبقے کے غلام بنے ہوئے ہیں نہ وہ آزاد ہوسکے نہ ہی ملک اسلامی بن سکا ‘ ہمارے ملک میں حکمران طبقے کے قبضے کی وجہ سے کائنات کا سب سے بہترین متبادل نظام نہ آسکا اور نہ ہی اسلامی جمہوریت کا انتہائی اعلیٰ واضح جمہوری طریقہ کار نافذ ہوسکا ‘ اقتدار میں کھلے وچھپے قبضے ، جمہوریت پر کھلی وچھپی بالا دستی اوردھاندلی نے ملک کو تباہی کے اندھیروںمیں دھکیل دیا‘ پاکستان کو اسلامی اور آزاد بنے نہ دیا گیا ‘ یہ ملک اگر لیاقت علی خان ، فاطمہ جناح ، سید ابواعلیٰ مودودی ،شاہ احمد نورانی ،پروفسیر غفور ، سید منور حسین ، فیض احمد فیض ،نصراللہ خان اور معراج محمد خان جیسے باشعور وبالغ نظر مفکروں اور سیاسی قیادت کے وژن میں رہتا تو آگے بڑھتا اور پورے عالم اسلام کی دولت کا وارث، سیاسی قائد ہوتا بلکہ پوری دنیا کے لیے (ماڈل) بہتر نمو ثابت ہوتا لیکن حکمران طبقے نے یہاں ایسا نہ ہونے دیا اور وہ پاکستان کی تاریخ کا اس اعتبار سے سب سے بڑا مجرم ٹھہرا ‘ 22کروڑ مسلمانوںکے ایمان کے امتحان کا آپشن ابھی کھلا ہوا ہے اور اس کے لیے اسلام کے نظریا تی نظاماتی شعور سے آراستہ محب وطن قیادت کی ضرور ت ہے جو پاکستان کے وفادار تمام اسٹیک ہولڈر کوساتھ لے کر چل سکے اور پاکستان میں موجود نظام کے خلا کو اسلامی نظام کے ذریعے بھر سکے ۔ مولاناعطا اللہ عبدالرؤف نے کہا کہ اسلام کا نام نہیں ہوتا تو پاکستان ہی وجود میں نہیں آتا 2 قومی نظریہ اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر ہی بنایا گیا ہے‘ قائد اعظم کا موقف بھی یہی تھا کہ اسلامی نظام زندگی کے تمام شعبو ں پر مسلمانوں کو آزادانہ عمل پیرا ہونے کے لیے ایک خطہ چاہیے اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام اور پاکستان لازم وملزوم ہیں‘ پاکستان جلد محلاتی سازشوں کا شکار ہوگیا ‘ سول بیوروکریسی کا پاکستان کے بنانے میں تو کو ئی کردار نہیں رہا مگر یہ طبقہ پاکستان بنے کے فوری بعد حکمران طبقے میں شامل ہوگیا ‘یہ طبقہ نہ تو اسلامی نظام کوسمجھتا تھا اور نہ ہی اسلامی نظام زندگی کو پسند کرتا تھا بلکہ اسلامی نظام کو اپنے لیے خطرہ محسوس کر تا تھا ‘ پاکستان کا اسلامی نہ بنے کی یہ بھی ایک بڑی وجہ بنی جس وجہ سے پاکستان میں 2 سال کی تاخیر کے بعد قرار دار مقاصد منظور کی گئی‘ حکمران طبقہ انگریز کا مراعات یافتہ تھا اس لیے اسلامی نظام کو ہائی جیک کر لیا گیا‘ عوام نے تو بارہااپنی رائے اسلامی نظام کے نفاذکے لیے دی ‘اس بات کا ادراک سیاسی جماعتوں کو با خوبی ہے ‘یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں اسلام کے نام پر ہی سیاست کرتی ہیں جو جماعت اسلام کے نظام کے بغیر سیاست کرنا چاہتی ہے تو و ہ پاکستان میں اپنا وجود بر قرار نہیں رکھ سکتی‘یہ صرف پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر تمام اسلامی ممالک میں مقتدر قوتیں اسلامی نظام کو اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھتی ہیں۔ پروفیسر جہاں آرا لطفی نے کہا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اس میں شک و شبہ کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن اس مملکت خداد ادکے ساتھ ظلم یہ ہوا کہ وہ زمانہ شیر خواری میں یتیم ہو گیا پھر اسے وہ حکمران نہ مل سکے جن کی سر پرستی میں یہاں کے عوام اس کے مقصد کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتے‘بس ظالم سوتیلی ماں کی طرح اس کے ساتھ بدسلوکی ہوئی‘کچھ حکمران پرانے آقاؤں کے پٹھو بنے اور اگر کوئی اچھا آیا بھی تو ہم نے چند الزامات اس پر دھر کر اسے راندۂ درگاہ کر دیا ۔ انہوں نے کہا کہ جس جمہوریت کا راگ پاکستان میں الاپا جا رہا ہے کیا وہ مفاد عامہ میں ہے ،یا تو چل میں آیا کی مصداق ہے‘ پاکستان میں نام نہاد جمہوریت کے نام پر دوڑ یں لگی ہوئی ہیں جس وجہ سے پاکستان اس حال تک پہنچ گیا ہے۔ پاکستان میںاب قانون سازی کی نہیں قوانین پر عملدرآمد کی سخت ضرورت ہے‘قانون سازی ہو چکی اس پر عمل درآمد سے ہی اسلامی پاکستان کی منزل مقصود تک پہنچا جاسکتا ہے‘پاکستان میں قوانین پر عملدرآمد نہیں ہو رہا اور ترامیم کے ذریعے اسلامی قوانین کو بھی مسخ کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک کا نظام تعلیم اس کی نظریاتی بنیادوں کو مضبوط کرتا ہے‘ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں نظام تعلیم کا بیڑہ غرق کر دیاگیا ہے ‘اگر میٹرک سے لے کر گریجویشن تک اسلامیات اور پاکستان اسٹیڈیز لازمی مضامین نہ ہوں تو ہمارے بچوں کو یہ بھی نہ پتا چلتے کہ کلمہ طیبہ کیا ہے اور قائد اعظم محمد علی جناح کون تھے۔