شہباز شریف کو سارا سچ بولنے کی ضرورت نہیں تھی،شاہد خاقان

155

اسلام آباد (آن لائن) سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ملک میں آج اسٹیبلشمنٹ کے پاس عمران خان کے علاوہ کوئی اور چوائس نہیں‘ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو ’’پاؤں پکڑنے‘‘ کی بات کھلے عام نہیں کرنی چاہیے تھی‘ شہباز شریف کی اپنی رائے ہے لیکن بہت ساری باتیں کھلے عام کرنے والی نہیں ہوتیں۔ ایک نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ شہباز شریف کی اپنی رائے ہے لیکن بہت ساری باتیں کھلے عام کرنے والی نہیں ہوتی ہیں‘ شہباز شریف نے ایک انٹرویو میں محاورتاً جذبات میںآکر بات کی میں ان کی طرف سے ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں غلطی ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کی حکومت گرائی اور عمران خان کی حکومت بچا رہی ہے‘ آج اسٹیبلشمنٹ کے پاس عمران خان کے علاوہ کوئی چوائس نہیں ہے کیونکہ ہم چوائس نہیں کیونکہ سودا خریدنے کو کوئی تیار نہیں ہے‘ ہم چوائس نہیں بن سکتے۔ انہوں نے کہا کہ آج تک ملک میں کسی نے عددی برتری کو نہیں کھویا یہ ایک حقیقت ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس چوائس نہیں ہے‘ سودا موجود ہے مگر کوئی خریدنے والا نہیں یہ ایک مسئلہ پیدا ہوچکا ہے‘ ہم سودا کرکے اقتدار میں نہیں آنا چاہتے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پورا ملک چاہتا ہے کہ انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار رہے‘ اس کے بغیر ملک آگے نہیں چل سکتا‘ نیوٹرل اسٹیبلشمنٹ صرف ہمارا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا مطالبہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن چوری ہوتے ہیں اور ساری دنیا جانتی ہے کہ کیوں اور کیسے چوری ہوتے ہیں۔ جس پر اینکر نے سوال کیا کہ آپ بھی 2013ء میں الیکشن چوری کر کے حکومت میں آئے تھے۔ جس پر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہر الیکشن چوری ہوتا ہے میں بھی الیکشن چوری کر کے حکومت میں آیا میرا کیا کر لیں گے آپ۔ انہوں نے کہا کہ ہر الیکشن کے اپنے محرکات ہوتے ہیں‘ کوئی کسی کی طاقت کم کرنے کے لیے ہوتا ہے اور کوئی الیکشن کسی کی طاقت زیادہ کرنے کے لیے ہوتے ہیں‘ اب یہ جو میں بات کر رہا ہوں اس کے بعد مجھے اپنا الیکشن بھی مشکل نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی حکومت میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار رہا ہے‘ اسٹیبلشمنٹ کا اپنا طریقہ ہوتا ہے‘ وہ کسی کو پسند کرتے ہیں اور کسی کو نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف کی حکومت پہلے دن سے پسند نہیں تھی‘ اسٹیبلشمنٹ حکومتیں کیوں بناتی اور توڑتی ہے اس کا جواب اسٹیبلشمنٹ خود ہی دے سکتی ہے۔