بھارت سے دوستی کی آرزو اور مظلوم کشمیری

406

ہماری ہر حکومت نے اپنے دورِ اقتدار میں کسی نہ کسی وقت بھارت سے دوستی کی آرزو کا ضرور اظہار کیا ہے۔ موجودہ حکومت بھی اس سے مبرا نہیں۔ مگر اس حکومت کے سربراہ عمران خان نے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے مقبوضہ کشمیر کے بارے میں اپنی پالیسی کا اعلان کرتے وقت واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہوئے بغیر بھارت سے کسی قسم کی دوستی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مگر حالیہ ایام میں جب کشمیریوں پہ اور خاص طور ان کے بچوں پہ بھارت کا ظلم و ستم اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوترس نے بھارت پر زور دیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بچوں کے خلاف پیلٹ گن کا استعمال فوری طور پر بند کیا جائے۔ ان حالات میں بھارت سے دوستی کی خواہش کا اظہار اہل ِ کشمیر کے زخموں پہ نمک چھڑکنے والی بات ہے۔ بہرحال اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری کا یہ بیان مسلح تصادم اور بچوں کی صورت حال پر اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کا حصہ ہے جس میں بتایاگیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی کارروائیوں میں گزشتہ برس 9 بچے شہید ہوئے اور 30 معذور ہوگئے۔
بھارتی فورسز کی جانب سے پیلٹ گن جیسے ظالمانہ ہتھیار کا استعمال قریب ایک دہائی سے جاری ہے؛ تاہم پچھلے چار برسوں کے دوران اس کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے اور اس دوران سیکڑوں افراد اس ظالمانہ ہتھیار کے چھروں سے عمر بھر کے لیے بینائی سے محروم ہوگئے۔ مسلح تصادم کی معاصر تاریخ میں اس ہتھیار جس کو غیرانسانی انداز سے مقبوضہ کشمیر میں استعمال کیا گیا ہے اس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے اس ظالمانہ اقدام کو ’’بینائی چھیننے کی اجتماعی کوشش‘‘ اور ’’جنگی جرم‘‘ قرار دیا جاچکا ہے۔ تاہم بھارتی فورس کے اس غیرانسانی سلوک کی یقینی روک تھام اور ان اقدامات پر بھارت سے باز پرس کا سوال ہنوز اپنی جگہ پر ہے۔ بچوں کی زندگی پر مسلح تصاد کے موضوع پر مذکورہ رپورٹ میں پیلٹ گن کا استعمال روکنے پر زور دے کر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اگرچہ اپنی ذمے داری پوری کی ہے؛ تاہم اقوام متحدہ کی ذمے داری اصولی طور پر اس سے کہیں آگے کی ہے۔ کیونکہ عمر بھر کے لیے معذوری کا سبب بننے والا غیر انسانی ہتھیار پیلٹ گن صرف بچوں کے لیے خطرات کا موجب ہے بلکہ بڑی عمر کے افراد بھی اس سے اسی طرح متاثر ہوتے ہیں، اس لیے پیلٹ گن کا استعمال بند کروانے کے لیے اقوام متحدہ کو زیادہ سنجیدہ اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی ذمے داری یہ بنتی ہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے انسانی حقوق مقبوضہ کشمیر میں پیلٹ گن کے اثرات پر جامع رپورٹ مرتب کرے اور سیکورٹی کونسل کی سطح پر اس رپورٹ پر بحث کی جائے۔ مگر بدقسمتی سے اقوام عالم کا یہ معتبر فورم ناانصافی کا سامانا کرنے والی مظلوم اور پسی ہوئی اقوام کے حقوق کی خاطر اپنے فرائض کی بجا آوری میں کامیاب دکھائی نہیں دیتا۔ دنیا میں بڑھتی ہوئی ناانصافی، جارحیت اور بدامنی کا اقوام متحدہ کے اس غیر فعالیت سے بھی کسی حد تک تعلق بنتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر ہی کی مثال لے لیں کہ اس تنازع علاقے کا تصفیہ کرنے کا اصول اقوام متحدہ کی قراردادوں میں موجود ہے مگر قریب سات دہائیوں سے اس پر عمل کی نوبت نہیں آسکی اور اس دوران مقبوضہ کشمیر کے عوام مسلسل قابض بھارتی فورسز کے مظالم کے نشانے پر ہیں۔ اگر اقوام متحدہ کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو یہاں کے عوام کی رائے کے مطابق بروقت حل کردیا جاتا تو یقینا کشمیر کی کم از کم تین نسلوں کو مظالم کے اس نہ ختم ہونے والے سلسلے کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور برصغیر پاک وہند کے خطے میں علاقائی تعلقات اور امن کی صورت حال مختلف ہوتی۔
حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کا حل طلب مسئلہ صرف پاکستان اور بھارت میں تنازعے کی بنیادی وجہ نہیں بلکہ چین بھی اب اس مسئلے کا ایک متاثرہ فریق ہے۔ اس طرح مسئلہ کشمیر کے اثرات جنوبی ایشیا کی مجموعی صورت حال پر اثر انداز ہے۔ بے شک اقوام متحدہ مظلوم کشمیریوں کی حالتِ زار سے لاعلم نہیں کہ وقتاً فوقتاً رپورٹوں میں اس المناکی کی نشان دہی کر دی جاتی ہے، جیسا کہ بچوں کے حوالے سے حالیہ رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے یا گزشتہ برسوں کے دوران یو این ہیومن رائٹس کمشنر کی جامع رپورٹس مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین صورت حال پر روشنی ڈال چکی ہیں۔ مگر اقوام متحدہ کا منصب صرف مسائل کی نشان دہی نہیں بلکہ ان کا حل تجویز کرنا اور اسے نافذ کرنا ہے۔ نشان دہی کا کام تو ذرائع ابلاغ، غیر سرکاری تنظیمیں اور تھنک ٹینک بہتر انداز سے کر رہے ہیں، اقوام متحدمہ کی ذمے داری تو اس سے بہت آگے کی ہے اور ستم رسیدہ آبادیاں اس سے یہی توقع رکھتی ہیں کہ یو این علاقائی مسائل کے حل تجویز کرے گا اور عمل کروائے گا۔ اگر اقوام متحدہ بھی واقعات کی جمع بندی تک محدود ہوجائے تو عالمی توازن اور استحکام کے لیے دنیا کس کی طرف دیکھے گی؟ انسانی حقوق کی پاسداری، انصاف کی فراہمی اور بقائے باہمی کی منشا عالمی امن کے بنیادی عناصر ہیں۔ معاشی نمو اور عالمی ترقی کا تصور بھی اسی سے جڑا ہے۔ معاشی مفادات اپنی جگہ اہم ہیں مگر مستحکم عالمی امن، ترقی اور خوش حالی کی ضمانت ہے اور معیشت اور منڈی کو زمینی حقائق سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ بدامنی کا ہلکا سا شائبہ کسی ملک کی بلندیوں پر پرواز کرتی معیشت کو کم سے کم وقت میں زمین بوس کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اقتصادیات کی بنیاد خلا میں نہیں رکھی جاسکتی، یہ انسانی زندگی اور ماحول سے جڑے ہوئے مظاہر ہیں۔ چنانچہ اقوام عالم کو سوچنا ہوگا کہ مارکیٹ کے محدود مفادات کی خاطر آفاقی قوانین کو پس پشت ڈال کر دنیا کو مزید کمزور نہ کیا جائے۔ عالمی امن کو ان خطرات سے آگاہ کرنے اور بچانے کی ذمے داری اقوام متحدہ پر عائد ہوتی ہے۔ اقوام عالم کے اس بنیادی پلیٹ فارم ہی سے یہ پہل کی جاسکتی ہے جو مقبوضہ کشمیر کے ستم خوردہ لوگوں، فلسطین کے مظلوموں اور علاقائی جارحیت سامنا کرنے والی دیگر اقوام کے حقوق کا تحفظ یقینی بناسکتی ہے۔
یہ ہیں وہ حالات جو اس بات کے متقاضی ہیں کہ کشمیر کے مسئلئے کو حل کیے بغیر ہماری حکومت کو بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے سے گریز کرنا چاہیے۔