یہ واقعی ایک معما ہے کہ وقتاً فوقتاً اسرئیل کے ساتھ پاکستان کے خفیہ روابط کے بارے میں انکشاف ہوتا ہے۔ اس بار یہ انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم کے مشیر زلفی بخاری نے اسرائیل کا خفیہ دورہ کیا ہے۔ گو حکومت پاکستان نے زلفی بخاری کے اسرائیل کے مبینہ خفیہ دورے کی تردید کی ہے لیکن یہ انکشاف اسرائیل کی عبرانی نیوز ویب NZIV نے اسرائیل کے سیاسی ذرائع کے حوالے سے بڑے وثوق سے کیا ہے کہ پاکستان نے اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کے لیے خفیہ مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔ NZIV نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے مشیر زلفی بخاری 20 نومبر کو برٹش ائر کی پرواز سے بن گوریاں ائر پورٹ پر اترے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ زلفی بخاری اسلام آباد سے لندن اور وہاں سے تل ابیب پہنچے تھے جہاں ان کا گرم جوشی سے خیر مقدم کیا گیا اور انہیں سیدھے یروشلم میں وزارت ِ خارجہ کے صدر دفاتر لے جایا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ زلفی بخاری، اسرائیل سے مذاکرات کے بارے میں وزیر اعظم عمران خان کا پیغام لے کر اسرائیل گئے تھے۔ زلفی بخاری نے اسرائیل میں چند روز قیام کیا جس کے دوران انہوں نے اسرائیل کے جاسوس ادارے موساد کے سربراہ یوسی کوہن سے ملاقات کی اور ایک خفیہ مراسلہ ان کے حوالے کیا۔
عبرانی ویب سایٹ کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے عمران خان کے اس اقدام کا مثبت جواب دیا ہے۔ اسرائیلی حکومت نے اس موقع پر پاکستان کی ہر ممکن مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کی استواری سے پاکستان کو اقتصادی استحکام حاصل ہوگا۔
عبرانی روزنامہ ہایوم کے مطابق ایک بڑے مسلم ملک کے جس کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات نہیں ہیں، اعلیٰ حکام نے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران اسرائیل کے نمائندوں کے ساتھ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ 2003 میں پرویز مشرف کی کیمپ ڈیوڈ میں صدر بش سے ملاقات میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے امکان کے بارے میں گفتگو ہوئی تھی جس کے بعد پاکستان کی وزارت خارجہ نے ان امکانات کا جائزہ لیا تھا کہ اگر پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تو اس کے پاکستان کو کیا فوائد ہوں گے۔
کیمپ ڈیوڈ کے بعد استنبول میں پاکستان کے اس زمانے کے وزیر خارجہ خورشید قصوری کی اسرائیل کے وزیر خارجہ سلون شلوم سے علی الاعلان ملاقات ہوئی تھی۔ اس موقع پر خورشید قصوری نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان پچھلے دس برس سے پس پردہ روابط جاری ہیں اور اب پس پردہ روابط کی ضرورت نہیں۔ اس سے پہلے فوجی آمر پرویز مشرف اور بے نظیر کے دور میں بھی اسرائیل کے ساتھ خفیہ مذاکرات ہو چکے ہیں لیکن ان کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ یہی صورت حال استنبول کی ملاقات کے بعد سامنے آئی اور خورشید قصوری کی ملاقات کے بعد کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ گزشتہ اگست میں امریکی صدر ٹرمپ کی کوششوں کے نتیجے میں متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ عرب ممالک کے ان فیصلوں کے بعد یہ کوششیں نمایاں ہیں کہ پاکستان کو بھی اس جال میں گھیرا جائے۔ اسرائیلی ذرائع کا کہنا ہے کہ زلفی بخاری کا اسرائیل کا مبینہ دورہ اسی کوشش کی ایک کڑی ہے۔ یہ واقعی معما ہے کہ وقتاً فوقتاً پاکستان اور اسرائیل کے درمیان خفیہ روابط کے بارے میں انکشاف ہوتا ہے۔