صحافت کیلئے وطن عزیز میں کچھ موضوعات ،شجر ممنوع ،اور بعض علاقے نوگوایریا ہیں

710

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) صحافت کے لیے وطن عزیز میں کچھ موضوعات ” شجر ممنوع” اور بعض علاقے” نو گو ایریا” ہیں ‘ سچ کہنے کی قیمت اپنی جان دے کر چکانی پڑتی ہے‘ صحافیوں کے لیے خطرناک ممالک میں پاکستان کا پانچواں نمبر ہے‘ میڈیا ہائوسز کے مالکان اپنا الو سیدھا کرنے میں لگے رہتے ہیں‘ ملک میں اب تک حکومتیں بنانا بگاڑنا، اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے معاملات کو عوام تک پہنچانا صحافت ہی کا کام رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پنجاب یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف کمیونی کیشن اسٹیڈیزکی ڈائریکٹر پروفیسر نوشینہ سلیم،پشاور یونیورسٹی کے شعبہ جرنلزم اینڈ ماس کمیونی کیشن کے سربراہ ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر فیض اللہ جان اور علما یونیورسٹی کے شعبہ میڈیا سائنسزکی صدر نشین ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ پروفیسر نوشینہ سلیم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صحافت ایک خطرناک پیشہ بن چکا ہے‘ صحافت اور سیاست کا معاشرے سے ہمیشہ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے‘ کبھی سیاست غالب آجاتی ہے تو کبھی صحافت، اور کبھی کبھی ایسے ادارے بھی ان دونوں کو غالب کرتے ہیں جن کو ہر ایک کی خبر ہے‘ پاکستان میں صحافت کی صورتحال ویسی ہی ہے جیسے ہم بہت سارے دوسرے ممالک میں دیکھتے ہیں‘ اگر صحافت کی ترقی کی طرف نگاہ ڈالیں تو نہ صرف صحافت کو پاکستان میں فروغ ملا ہے اور بہت سے اخبارات ،ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا کا آغاز ہوا ہے‘ پاکستان میں صحافت آزاد ہے اور کسی حد تک خود مختار بھی ہے‘پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک حکومتیں بنانے بگاڑنے، اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے معاملات کو عوام تک پہنچانا صحافت ہی کا کام رہا ہے‘ بلا شبہ صحافتی ادارے کافی حد تک اپنا کام صحیح طرح سے انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں‘اب بات کرتے ہیں کہ صحافت ایک خطرناک پیشہ بن چکا ہے یا نہیں‘ میں اس بات پر کسی حد تک اتفاق نہیں کرتی، کیونکہ آج بھی اس ملک میں ہم چند برسوں سے دیکھ رہے ہیں بہت سارے صحافیوں نے بہت نام اور بہت مقام پیدا کیا البتہ کچھ صحافیوں کو اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔اس کی ایک بہت بڑی وجہ صحافی حضرات کی پیشہ ورانہ تربیت کا فقدان ہے۔خطرناک مقامات پر کیسے جانا ہے ان کی مکمل تربیت نہیں ہوتی‘ مسلسل ادارے بدلنے کی وجہ سے ذہنی دبائو کا شکار رہتے ہیں ‘ اداروں کی پالیسی بہت سے سارے ایشو پر واضح نہیں ہوتی‘ صحافیوں کو قربانی کا بکرا بننا پڑتا ہے اس کی بہت ساری مثالیں آپ کے سامنے ہیں‘ مالکان کی اجارہ داری، جاب سیکورٹی کا نہ ہونا‘ اس کے علاوہ ہیلتھ سیفٹی کی پروڈیکشن نہ ہونا اورکوئی ریٹن ایگریمنٹ نہ ہونا بھی صحافی اور اداروں کے لیے چپقلش کا باعث رہتا ہے‘ کوئی بھی ادارایمشکل وقت میں صحافیوں کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا‘ہم سلوگن دیتے ہیں کہ صحافت ہمیشہ آزاد ہونی چاہیے‘ہر شخص کو ہر بات کہنے کی مکمل آزادی ہو‘ آپ کو پتا ہے بہت زیادہ اظہار رائے کی آزادی ہمیشہ تباہی کا باعث بنتی ہے‘آزادی ہمیشہ ذمہ داری کے ساتھ منسلک ہے ‘ بہت زیادہ آزادی بھی ملکی سالمیت کے لیے خطرناک ہوتی ہے‘وہی معاشرے ترقی کرتے ہیں جو ذمہ دارنہ رویے کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں ‘ اب بھی بہت سارے صحافتی ادارے خودمختار ہیں اور وہ ایسی ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جس کی وجہ سے حکومت وقت اور بہت سارے اداروں کو بھی اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ ڈاکٹر فیض اللہ جان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں صحافت خطرناک پیشہ بن چکا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ پیشہ پہلے خطرناک نہیں تھا لیکن اب حالات اس طرح کے پیدا ہوگئے ہیں کہ اب یہ پیشہ خطرناک ہوگیا ہے‘ میری ذاتی رائے میں تمام وہ معاشرے یا ممالک جس کی تشکیل فاشسٹ ڈکٹیٹر کی بنیاد پر ہوتی ہے تو اس جگہ صحافت کا پیشہ خطرناک بن جاتا ہے‘ حالانکہ صحافت کا بنیادی کام لوگوں کو شعور دلوانا‘ ان کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی دینا تا کہ اپنے حق کے لیے آواز بھی اٹھائیں‘ جمہوری اور عوامی رائے کے برعکس آنے والی حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ عوام رعایا کے طور پر روزمرہ کی زندگی گزاریں جبکہ جمہوری حکومت کی نظر میں عوام رعایا نہیں بلکہ شہری ہوتے ہیں‘ اگر صحافت شہریت کی پر ورش کے لیے استعمال ہوتی ہے تو جمہوری ممالک میں اتنی خطرناک نہیں ہوتی مگر جہاں آمریت کا راج ہو وہاں صحافت کو خطرناک تصور کیا جاتا ہے‘ پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے ساتھ وہ تمام ادارے جو جمہوریت کی ضد میں کھڑے ہوتے ہیں‘ ان کو بہت ڈھیل دی گئی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر ملک میں کوئی بڑا حادثہ ہوجائے تو اس کی اطلاع نشریاتی اداروں کے بجائے سوشل میڈیا سے معلوم ہوتی ہے‘ اگر کوئی صحافی ان اداروں سے مخالفت لے کر اس واقعے کو رپورٹ کرے گا تو اس کو نقصان پہنچایا جائے گا جس کی تازہ مثال اسد طور کی ہے‘ مطیع اللہ جان بھی اس فہرست میں شامل ہیں اور اگر ان صحافیوں کے جرم کا پوچھا جائے تو بس ان کا یہ جرم ہے کہ انہوں نے جسٹس فائز عیسیٰ کے اوپر قائم کیے گئے مقدمات کو رپورٹ کیا تھا۔ ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی نے کہا کہ ملک کا کوئی سا بھی شعبہ لے لیجیے بدعنوانی سے پاک نہیں‘ ایک صحافت ایسا شعبہ تھا جو اپنی بے باکی اور جرأت مندی کے لیے مشہور تھا اور اپنا کام پیشہ ورانہ دیانت سے کرنے کی وجہ سے اچھی شہرت رکھتا تھا مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب صحافیوں کو سچ کہنے کی قیمت اپنی جان دے کر چکانی پڑتی ہے‘ اپنی جان اور کردار دونوںدائو پر لگانے پڑتے ہیں‘ یہاں ایک سچے اور نڈر صحافی کی جان کا کوئی تحفظ نہیں ‘ نہ مالکان یہ ذمہ داری اٹھانے کو تیار ہیں نہ ہی حکومت کی جانب سے ایسی کوئی قانون سازی اور حکمت عملی تیار کی گئی ہے‘ صرف اسی بات سے اندازہ لگا لیجیے کہ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ 30 برس میں دنیا بھر میں جتنے صحافی لقمۂ اجل بنے ان میں پاکستانی صحافی پانچویں نمبر پر ہیں اور اب تک صحافیوں پر148 حملے ہو ئے جس کا تناسب سالانہ40 فیصد سے زیادہ ہے‘ گزشتہ ایک برس میں7 صحافیوں کو قتل کیا گیا‘ کئی ایک حملوں کا شکار ہوئے‘ بہت سوں کو دھمکیاں ملیں‘ کوئی اغوا ہوا‘ کوئی نظر بند ہوا تو کسی کے دفتر پر حملہ کیا گیا‘ کسی کو نام معلوم فون کالوں کے ذریعے دبائو میں لیا گیا‘ افسوس اس بات کا ہے کہ اب وطن عزیز میں کچھ موضوعات ” شجر ممنوع” کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں اور کچھ علاقے” نو گو ایریا” بنا دیے گئے ہیں، ان پر بات کرنا تو در کنار ان کی نشان دہی کر نے والا بھی ایسا جان سے جاتا ہے کہ اس کی لاش بھی نہیں ملتی جس ملک میں آزادیٔ اظہار کا قانون موجود ہو وہاں ایک اہم اور حساس پیشے سے وابستہ افراد کے ساتھ ایسا بہیمانہ سلوک ناقابل فہم ہے‘ میڈیا مالکان اپنا الو سیدھا کرنے میں لگے رہتے ہیں‘ ان کے اپنے مفادات ہیں ان کے لیے میڈیا ہائوس ایک نفع بخش ادارہ ہے‘ وہ کمرشل ازم پر یقین رکھتے ہیں‘ ان کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے اور وہ اب مالکان سے زیادہ مدیر بنے بیٹھے ہیں‘ معیار ی صحافت کا گراف تیزی سے نیچے آرہا ہے۔ ایسے میں جو گنے چنے افراد صحافتی اقدار کے علم بردار ہیں جو سچ کہنا اور سچ لکھنا چاہتے ہیں اور جو مستقبل کے صحافیوں کے لیے مشعل راہ ہیں‘ ہمیں ان کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا اس کے لیے نہ صرف قانون سازی کرنا ہوگی بلکہ اس پر سختی سے عمل درآمد بھی کرانا ہوگا۔