ویمن ورکرز الائنس کراچی کا ڈسٹرکٹ لیول کنونشن تخلیق فائونڈیشن کے تعاون سے کراچی پریس کلب میں 22 جون کو منعقد ہوا۔ پروگرام سے ممبران سندھ اسمبلی اور مزدور رہنمائوں نے خطاب کیا۔ ٭اس موقع پر سینئر مزدور رہنما مرزا مقصود نے کہا کہ ملازمت پیشہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین تو بنے ہوئے ہیں لیکن محکمہ محنت ان پر عمل نہیں کرواتا۔ ملازمت پیشہ خواتین کو اپنے حقوق کا علم ہونا چاہیے۔ ورکنگ ویمن کو جب اپنے حقوق معلوم ہوں گے تو ان کے حصول کے لیے جدوجہد کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملازمت پیشہ خواتین اپنے حقوق اتحاد کی طاقت سے حل کرواسکتی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ورکنگ ویمنز کو تقررنامے فراہم کیے جائیں، تنخواہ بینک کے ذریعے دلوائی جائے، سیسی اور EOBI کارڈ دیے جائیں۔ ٭ سینئر مزدور رہنما سعید بلوچ نے کہا کہ ملازمت پیشہ خواتین کے حقوق بھی انسانی حقوق ہیں جن کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ورکرز کو 17 ہزار تنخواہ نہیں مل رہی تو مالکان 25 ہزار تنخواہ کہاں سے دیں گے۔ حکومت اپنے احکامات پر عمل کروائے۔ انہوں نے کہا کہ ملازمت پیشہ خواتین منظم ہو کر حکومت کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے مجبور کریں۔
٭ نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے رہنما ناصر منصور نے کہا ہے کہ معاشرہ عورت دشمنی پر مبنی ہے۔ خواتین کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔ وزیراعظم بھی خواتین کے دشمن ہیں٭ سماجی کارکن زاہد فاروق نے کہا کہ مزدوروں کو تقسیم نہ کیا جائے۔ عورت اور مرد گاڑی کے دو پہیہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ ٭ PILER کے ڈائریکٹر کرامت علی نے وزیراعظم کے خواتین پر بیان کی مذمت کرتے ہوئے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا۔ وزیراعظم کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ خواتین کے لباس پر تبصرہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ صدر پاکستان اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کریں تا کہ ملک میں موجود بدحالی سامنے آسکیں۔ میں نے تین سال قبل صدر کو ملازمت میں تجاویز دیں تھیں۔ میرے دوست ہونے کے باوجود انہوں نے عمل نہیں کیا اس لیے اب میں صدر پاکستان کی کال وصول نہیں کرتا۔ یہی صورت حال گورنر سندھ کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کارخانوں میں مزدوروں کو تنخواہ 12 سے 14 ہزار روپے دی جاتی ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین کو تنخواہ 7 سے 10 ہزار روپے دی جاتی ہے جبکہ 12 گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔ ٭MQMکی ممبر سندھ اسمبلی رابعہ خاتون نے کہا کہ مزدوروں کی کم از کم اجرت 30 ہزار روپے کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ملازمت پیشہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایوان میں آواز بلند کریں گی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ محکمہ محنت سندھ خواتین لیبر انسپکٹر سے ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل پر سروے کرے اور حکومت سندھ ورکنگ ویمنز کے حقوق کا تحفظ کرے۔ ٭ MQMکی ممبر سندھ اسمبلی منگلا شرما نے کہا کہ ملازمت پیشہ خواتین مسائل کا شکار ہیں۔ یونین میں خواتین کو نمائندگی دی جائے۔ ڈے کیئر بے بی سینٹر قائم کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ورکنگ ویمنز سے تعاون کریں گے۔ آخر میں انہوں نے شعر سنایا
زندہ رہنا ہے تو حالات سے ڈرنا کیسا
جنگ لازم ہو تو لشکر دیکھے نہیں جاتے
٭CPD کی رہنما ڈاکٹر بلقیس نے کہا ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت اقدامات اٹھائے۔ ٭ MQM کی رہنما فرح ناز نے کہا کہ ورکنگ ویمنز اپنے حقوق سے آگاہ ہوں۔ جب حقوق کا علم ہوگا تو حق حاصل کرنے کی جدوجہد کی جاسکتی ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین کو حقوق جدوجہد سے مل سکتے ہیں۔ ٭ تخلیق فائونڈیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد یعقوب نے حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ ویمنز ورکرز الائنس کی رہنما رابعہ چوہان نے ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل پر چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا۔ تخلیق فائونڈیشن کے رہنما ضیاء الحق نے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دیے۔ شہنیلا نے تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز کیا۔ محکمہ محنت سندھ کے کسی افسر نے تقریب میں شرکت کرنا گوارا نہیں کیا۔ پروگرام میں مزدور رہنما حبیب الدین جنیدی،ورکنگ ویمن ویلفیئر آرگنائزیشن کی رہنما حمیرا قریشی، نگہت ملک اور دیگر خواتین نے شرکت کی۔