افغان باقی کہسار باقی

639

 

بلاآخر 20سال کے بعد افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادی اپنے زخم چاٹنے ہوئے افغانستان سے ذلیل ورسواء ہوکر نکل رہے ہیں ۔150سے زائد اضلاع میں طالبان کا مکمل قبضہ اور کنٹرول ہوچکا ہے اور کابل اب قریب ہی ہے ۔2002میں سامراجی قوتوں نے افغانستان کی اسلامی حکومت پر حملہ کر کے اسے تاراج کر دیا تھا۔پورے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے باوجود امریکا اور اس کے اتحادی افغانوں کے جوش اور جذبہ شوق شہادت کو شکست نہ دے سکے ۔طالبان کی فتح پر اقوام متحدہ، امریکا، برطانیہ، بھارت سب خوف کی کیفیت میں ہیں۔ پاکستان میں بھی امریکی کارندوں کی نیندیں اُڑی ہوئی ہیں اور ان سب پر طالبان کی ہیبت طاری ہوگئی ہے۔ عالمی سپر پاور روس کو شکست فاش اور اس کے بخیے اُدھیڑنے کے بعد دنیا کی واحد سپر پاور امریکا اور اس کی اتحادی ناٹو افوا ج کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کرنے کے بعد طالبان نے جنگ بدر کی یاد کو تازہ کر دیا ہے جب 313نہتے مسلمانوں نے اس وقت کی دنیا کی سپرپاور کو شکست دی تھی۔ آ ج طالبان فتح کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں تو انہوں نے بھی فتح مکہ کی تاریخ کو دہرایا ہے اور معافی مانگنے والے تمام افراد کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے۔ جس پرلاکھوں افراد معافی طلب کرکے طالبان کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں اوراپنا اسلحہ بھی انہوں نے طالبان کے پاس جمع کرا دیا ہے اور اپنے ہتھیار پھینک دیے ہیں۔ طالبان کے اس رویے کے بڑے بہتر نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ افغان افواج کے دستے علم بغاوت بلند کرتے ہوئے طالبان کی فوج میں شامل ہو رہے ہیں اور 24 سو افغان فوجیوں کی طالبان میں شمولیت نے تو کایہ ہی پلٹ دی ہے۔ امریکا کی جانب سے چھوڑے جانے والے اسلحہ اور بیس کیمپ پر طالبان کا قبضہ ہو رہا ہے اور افغان فورسز کی کمر ٹوٹ چکی ہیں۔ افغان حکومت انتشارکا شکار ہے۔ آرمی چیف، وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ امریکا اور طالبان معاہدے کے مطابق ستمبر تک تمام غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی۔ غیر ملکی افواج جب افغانستان میں موجود نہیں ہوں گی تو یہاں امن کا قیام یقینی ہوگااور اسلامی ریاست بھی قائم ہوگی۔ روس کے بعد اب امریکا کو ذلت آمیز شکست کھانے اس بات کا بھی پتا چل گیا ہے کہ دنیا سے بڑی سے بڑی قوت مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کو شکست نہیں دے سکتی۔ افغانستان میں ناٹو فورسز نے ٹنوں کے حساب سے بارود اور بم، میزائل ان نہتے لوگوں پر برسائے ہیں۔ کون سا اسلحہ، میزائل اور بم ہے جو یہاں برسایا نہیں گیا۔ اس 20 سال میں ناٹو کی وحشیانہ بمباری کی وجہ سے آ ج پورا افغانستان کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے۔ لاکھوں افراد اس جنگ میں شہید ہوئے لاکھوں ہی زخمی اور معذور ہوئے۔ صرف پاکستان میں ہی30لاکھ افغان مہاجرین پناہ لیے ہوئے ہیں۔ افغانوں کی تیسری نسل اس جنگ وجدل میںپل کر جوان ہوچکی اس سب کے باوجود شاباش ہے اللہ کے ان شیروں پر کہ ان کے پیروں پر لرزاں تک نہیں آیا اور میدان جنگ سے لے کر مذاکرات کی میز تک افغانوں نے ہر جگہ اپنا لوہا منوایا ہے۔ 20برس حالت جنگ میں رہنے والے طالبان آج مذاکرات کی میز پر بھی کسی کے رعب میں آئے بغیرامریکا کی خواہش پر پرامن تصفیے کی بات کو مان رہے ہیں۔ امریکا افغانستان میں بری طرح پھنس گیا ہے اور اسے یہاں سے نکلنے کا محفوظ راستہ چاہیے تاکہ وہ آسانی سے یہاں سے نکل سکے۔ امریکا نے افغانستان کی جنگ سے اچھی طرح سبق حاصل کر لیا ہے اور اب وہ آئندہ کسی بھی اسلامی ممالک پرحملہ آورہونے سے پہلے سو بار سوچے گا۔ امریکا نے طاقت کے نشے میں پورے خطے کا امن تباہ کیا اوریہاں کی بستیوں کو تاراج کیا۔ بارود کی برسات نے بھی انہیں فتح سے ہمکنار نہیں کیا۔ ریگن، بش، بل کلنٹن، اوباما، جارج بش، ٹرمپ کے بعد جوبائیڈن تک سب کے سب ناکام اور نامراد ثابت ہوئے ہیںطالبان کی فہم اور فراست نے آج اسلام دشمن قوتوں کو ذلت آ میز شکست سے دوچار کر دیا ہے اوروہ وقت بھی دور نہیں ہے جب طالبان ملاہیبت کی قیادت میں ایک بار پھرافغانستان میںاسلامی ریاست قائم کریں گے اور ایک ایسا نظام حکومت قائم کیا جائے گا جہاں حاکمیت اعلی قرآن وسنت کی ہوگی اور پوری دنیا کے سامنے افغانستان میںایک ایسا انقلابی نظام عملی طور پر نافذ العمل کر کے دیکھایا جائے گاجہاں زکوۃ باٹنے والے تو موجود ہوں گے لیکن زکوۃ لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔ امریکی انخلاء کے بعد پاکستان میں بھی اضطرابی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ پاکستان نے امریکا کو افغانستان کی نگرانی ودیگر عوامل کے لیے فوجی اڈے دینے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ اللہ کرے وزیر اعظم اس مسئلے پر یوٹرن نہ لے لیں کیونکہ اب قوم ان کی کسی بات پر اب یقین نہیں کرتی کہ کیا پتا کب کوئی تھوڑاسا پریشر ڈالے اور کپتان صاحب ڈھیر ہو جائیں۔ افغانستان میں پاکستان دوست حکومت کا قیام پاکستان کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ بھارت نے افغانستان میں بیٹھ کر جو گل کھلائے ہیں اس سے ہر ذی شعور واقف ہے۔ ایران، پاکستان ترکی مل کر افغانستان کی بحالی کے لیے کام کریں کیونکہ ایک مضبوط اور خوشحال افغانستان پورے خطے کے لیے ناگریز ہے۔ طالبان کو بھی جوش کے بجائے ہوش سے کام لینا ہو گا اور انہیں اپنے دوست اور دشمن میں تمیز کرنا ہوگی۔ افغانوں کی ہمت اور جرأت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ انہوں نے ہر دور میں ظلم اور طاغوت کو للکارا ہے اور دشمنوںکو شکست فاش دی ہے۔
افغانستان میں ایک ایسی اسلامی ریاست جہاں عدل کا نظام عملی طور پر قائم ہوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے بجائے مدینے کا نظام قائم ہوجائیں تو اس کے اثرات پورے خطے میں محسوس ہونگے۔عالمی سامراج اب جب کہ نہتے افغانوں سے شکست کھا چکا ہے اور وہ برملا اپنی اس شکست کو بھی قبول کر رہا ہے تو ایسے میں امن کے نام ونہاد ٹھیکیداروں کے لیے بھی تنبیہ ہے کہ وہ اس کھیل سے دور ہی رہے۔ اسلامی ریاست کسی مذہب اور کسی تہذیب کے خلاف نہیں بلکہ یہ تو امن اور آشتی کا پیغام دیتی ہے ۔اقلیتوں اور خواتین کو جیتنے حقوق دین اسلام نے دیئے ہیں کسی بھی مذہب نے نہیںدیے ہیں۔ اسلامی ریاست کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے ہی اسلام کے اصل دشمن ہیں۔ لڑاواور حکومت کرو کی پالیسی نے دنیا کے امن کو تباہ کر دیا ہے۔ شام، عراق، فلسطین، کشمیر میں بھی یہ ہی صورتحال پیدا کی ہوئی ہے مسلمانوں کو گاجرمولی کی طرح کاٹا اور مارا جا رہا ہے۔ افغانوں نے یہ جنگ اپنے عذم ولولے، استقامت سے جیتی ہے اور ان کی لازوال قربانیوں کے نتیجے میں آج پوری دنیا ان کے آگے سرنگوں ہوگئی ہے تواس کے پیچھے ان کا شوق شہادت کاوہ جذبہ ہے جس نے دنیا کی تمام ٹیکنالوجی اورہتھیاروں کو شکست فاش دے دی ہے۔ افغانستان کے بلندوبالا پہاڑ بھی آج اس عظیم الشان کامیابی اور کامرانی پر خوشی سے جھوم اور مسکرا رہے ہوں گے۔ دریائے کابل بھی ان لمحات پر موجیں مار رہا ہوگا۔جہاد افغانستان کے شہدا بھی مطمئن ہوں گے کی اللہ نے ان کی قربانی کا ثمر دے دیا ہے۔ افغانوں نے بھی پوری دنیا کے فرعونوں اور طاغوتی قوتوں کو واضح پیغام دیا ہے کہ افغانستان پر پنجہ آزمائی کرنے والے اپنے سر افغانستان کے پہاڑوں پر مار مار پر انہیں پھاڑ توسکتے ہیں لیکن افغانوں کو شکست نہیں دے سکتے ۔کیونکہ افغانوں کو جلدی نہیں ہے۔