اردو کو دفتری زبان نہ بنانے کی وجہ حکمراں طبقے کا مغرب کا ذہنی غلام ہونا ہے

266

کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی) اُردو کو دفتری زبان نہ بنانے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے جاگیردار، اعلیٰ سول اور ملٹری بیوروکریسی سمیت حکمراں طبقہ مغرب کا ذہنی طور پرغلام ہے‘ منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کے نظریاتی تشخص کو خراب اور لوگوں کوگمراہ کیا جا رہا ہے‘ ملک کو ترقی کے راستہ پر چلنے سے روکا جا رہا ہے۔ ان کا خیالات کا اظہار معروف دانشور اور روزنامہ جنگ کے سابق مدیر ثروت جمال اصمعی، امریکا میں مقیم بین الاقومی اموار کے ماہر مسعود ابدالی اور معروف شاعر اور ادیب فیض عالم بابر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’قائد اعظم کی ہدایت کی روشنی میں ابھی تک اُردو کو قومی اور سرکاری زبان کیوں نہیں بنایا جاسکا؟‘‘ ثروت جمال اصمعی نے کہا کہ ملک میں قومی زبان اُردو کے سرکاری، دفتری اور تدریسی زبان کی حیثیت سے اب تک نافذ نہ ہونے کی اصل وجہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں، اعلیٰ سول اور ملٹری بیوروکریسی سمیت حکمراں طبقے میں رچی بسی مغرب کی ذہنی غلامی اور عوام پر اپنا اور اپنی نسلوں کا اقتدار قائم رکھنے کی خواہش ہے‘ یہی وجہ ہے کہ نفاذ اُردو کے جس کام کو موجودہ آئین کی رو سے پچھلی صدی کے آخری عشرے سے پہلے مکمل ہوجانا تھا‘ اس سمت میں آج تک کوئی قابل قدر پیش رفت بھی نہیں ہوسکی‘ قوم پر انگریزی کو7 عشروں سے مسلط رکھنے کی بنا پر ہماری ذہنی مرعوبیت اس انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ انگلش میڈیم پرائیویٹ اسکولوں کے سوا اب بچوں کی تعلیم کی کوئی صورت ہی باقی نہیں رہ گئی ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ قومی زبان کسی سرکاری سرپرستی کے بغیر صرف فطری اسباب کی بنا پر اتنی طاقتور ہو گئی ہے کہ اس ملک میں ایک بھی انگریزی ٹی وی چینل نہیں چل سکا۔ ملک کا قدیم ترین انگریزی اخبار اپنے انگریزی چینل کو بہت جلد اُردو چینل میں بدلنے پر مجبور ہوگیا۔ حکمراں اپنے منصب کا حلف چاہے اُردو میں پڑھنے سے گریز کریں مگر قوم سے خطاب اُردو ہی میں کرنے پر مجبور ہیں‘ ملک کے مختلف علاقوں کے لوگوں میں رابطے کا ذریعہ اُردو ہی ہے‘ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ انگریزی کو ذریعہ تعلیم اور ذریعہ اظہار بناکر ہم علم کی ترقی میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں‘ تمام ترقی یافتہ ملکوں میں تعلیم ان کی اپنی ہی زبان میں دی جاتی ہے لہٰذا تعلیمی انقلاب کے لیے قومی زبان کو ذریعہ تعلیم اور ذریعہ اظہار بنانا سب سے بنیادی ضرورت ہے ‘ اُردو کے نفاذ کے لیے قوم کے باشعور لوگ متحد ہوکر جدوجہد کریں تو منزل زیادہ دور نہیں ہے۔ مسعود ابدالی نے اُردو اور پاکستان کو لازم وملزوم قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح نظریہ پاکستان کے بغیر پاکستان کا وجود نہیں ہوسکتا‘ اسی طرح اُردو کے بغیر پاکستان قائم نہیں رہے سکتااسی لیے کہ اُردو صرف ایک بولی نہیں بلکہ ایک تہذیب و تمدن کا آئینہ دار ہے‘ اُردو کو سرکاری زبان کے طور پر استعمال نہ کیے جانا محض انتظامی کمزروی، تساہل یا مجبوری نہیں بلکہ ایسا ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے، جس کا مقصد پاکستان کے نظریاتی تشخص کو خراب کرنا، پاکستانیوں کوگمراہ رکھنے اور ترقی کے راستہ پر چلنے سے روکنا ہے ، یہ سب کچھ نظریہ پاکستان کے مخالفین کی جانب سے کیا گیا ہے جو کام اس وقت اُردو کے ساتھ کیا جا رہا ہے وہی کام انگریز بادشاہ نے برصغیر پر قبضے کے بعد اس وقت کی دفتری زبان فارسی کے ساتھ کیا‘ انگریز نے فی الفور فارسی کی جگہ انگریزی کو دفتری زبان کے طور پر رائج کیا جس کے نتیجے میں سارے فارسی جاننے والے علما اور اس وقت کے تعلیم یافتہ افراد ناخواندہ قرار پائے اور انگریزی کی معمولی شدبد رکھنے والا تعلیم یافتہ کہلانے لگا۔ ان کا کہنا تھاکہ پاکستان میں بدانتظامی اور بدعنوانی سمیت دیگر خرابیوںکی وجہ اردو کو دفتر ی زبان نہ بنایا جانا بھی ہے‘ذریعہ تعلیم اور دفتری زبان غیر ملکیہونے کی وجہ سے عام آدمی قوانین سے واقف نہیں ہوتا جس کی لاعملی کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ فیض عالم بابر نے کہا کہ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی اس کی اپنی زبان سے ہی ممکن ہے‘ جاپان، چین، اسرائیل، جرمنی، فرانس و دیگر ممالک اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ برصغیر میں 18 ویں صدی سے رائج لارڈ میکالے کے انگریزی نظام نے صرف کلرک، اساتذہ، پست گریڈ کے سرکاری ملازمین ہی پیدا کیے ہیں لیکن کوئی مفکر، مدبر، سائنسدان، موجد، ریفارمر پیدا نہیں کیا۔ بانی پاکستان غالبا مکار انگریزوں کی اس چال سے واقف تھے‘ اس لیے اُردو کو نافذ کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’جو اُردو کے بارے میں آپ کو گمراہ کرے وہ پاکستان کا دشمن ہے‘‘۔