اس میں کسی قسم کی دو آرا نہیں پائی جاتیں کہ ملک میں بھوک، افلاس، بے روزگاری اور مہنگائی نے ایسے پنجے گاڑے ہیں کہ افراد تو افراد، خاندان کے خاندان خودکشیوں پر خودکشیاں کرتے نظر آرہے ہیں۔ آج سے تین چار دہائیوں قبل اگر کوئی ایک فرد بھی مہنگائی یا بے روزگاری کے ہاتھوں مجبور ہو کر خودکشی جیسا قبیحہ فعل کر گزرتا تھا تو حکومتی مشینری ہل کر رہ جایا کرتی تھی اور اڑوس پڑوس کا یہ عالم ہوتا تھا کہ کئی کئی روز تک اہلِ محلہ کے حلق سے لقمہ اتر کر نہیں دیا کرتا تھا لیکن اب عالم یہ ہو گیا ہے کہ نہ تو اہل اقتدار کے کانوں پر کوئی جوں رینگتی ہے اور نہ ہی اڑوس پڑوس کے لیے یہ کوئی ایسی انہونی بات ہے کہ اس پر دکھ اور غم کو سر پر سوار کر لیاجائے۔ اس بے حسی اور اہل ِ اقتدار کی لا تعلقی ہی کا نتیجہ ہے کہ پورے ملک میں ہر قسم کے جرائم کا اضافہ در اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اب ہر فرد و بشر، خواہ اس کا تعلق معاشرے کے کسی بھی طبقے ہی سے کیوں نہ ہو، اس کی جان، مال، عزت اور آبرو بالکل غیر محفوظ ہو کر رہ گئی ہے اور کسی بھی فرد کو اس بات کی خبر نہیں کہ وہ گھر میں ہو یا دفتر میں، کسی تعلیمی، سیاسی، سماجی یا کاروباری سرگرمی میں مصروف ہو یا ہوا خوری کے لیے گھر سے باہر نکلا ہو، نجانے کس لمحے لٹیرے موت کے فرشتے بن کر اس پر نازل ہو کر اس سے چھینا جھپٹی کرنے لگیں اور اگر سہواً یا قصداً وہ اپنا دفاع کرنے بیٹھ جائے تو لوٹنے والے بلا جھجک اس کو سفر آخرت پر روانہ کر کے فرار ہو جائیں۔ ایک جانب مہنگائی اور بے روزگاری کا ایسا شور قیامت برپا ہو اور دوسری جانب اہل اقتدار اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہ ہوں کہ ملک میں نہ تو کوئی غریب ہے اور نہ ہی کوئی بے روزگار تو پھر وہ فرزانے جو اقتدار کی کرسیوں پر براجمان افراد کی حمایت میں کھڑے نظر آئیں تو ان کی عقلوں پر سوائے ماتم اور کیا کیا جا سکتا ہے۔
ایک تو سیاسی اکابرین کے سیاسی بیانات ہوا کرتے ہیں جسے وہ پریس کانفرنسوں اور جلسہ عام میں داغا کرتے ہیں۔ عام طور پر اس قسم کے دعوں کو عوام بھی کوئی سچ تو سمجھا نہیں کرتے کیونکہ ان کے سامنے اپنے اکابرین کا ماضی کھلی کتاب کی مانند ہوا کرتا ہے اور وہ خوب جان چکے ہوتے ہیں لیکن کچھ مقامات ایسے ہوتے ہیں جہاں جھوٹ بھی سچ ہی سمجھا جاتا ہے اور وہ جھوٹ ہو یا سچ، ملک کی تاریخ کا ایک انمٹ نقش بن جایا کرتا ہے۔ جلسہ گاہوں اور پریس کانفرنسوں کے فورم سے کہیں مقدس فورم اسمبلیوں کے فلور ہوا کرتے ہیں جہاں لبوں سے نکلی ایک ایک بات ملک کی سیاسی تاریخ کا ایک باب بن جایا کرتی ہے اور وہ ساری باتیں جن کو اسپیکر صاحبان یا سینیٹ کا چیئرمین رد یا حذف نہیں کر دیا کرتا، آنے والے ادوار میں وہ حوالوں (ریفرنس) کے بطور پیش کیے جاتے ہیں۔ ایسے مقدس فلور پر اگر کوئی نہایت ذمے دار حکومتی شخصیت اس بات کا دعویٰ کرے کہ پورے ملک میں نہ تو کہیں بے روزگاری ہے اور نہ ہی کوئی غریب پایا جاتا ہے تو کیا اس کو ہوش مندوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
اسمبلی کے فلور پر پرویز خٹک نے ایک ایسی بات کہہ دی جو جو بہر لحاظ غیر ذمے دارانہ تھی۔ موصوف کا فرمانا تھا کہ غربت غربت کا شور اپوزیشن کا پروپیگنڈا ہے۔ ملک میں کہیں بھی نہ تو بے روزگاری ہے اور نہ ہی کوئی غریب پایا جاتا ہے۔ خاص طور سے انہوں نے اپنے صوبے خیبر پختون خوا کے حوالے سے دعویٰ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے صوبے میں کوئی ایک فرد بھی نہ تو غریب ہے اور نہ ہی بے روزگار۔ سب خوش حالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اپنے ہی دعوے میں زور پیدا کرنے کے لیے انہوں نے دلیل دی کہ میں خود کنسٹرکشن کا کام کرتا ہوں۔ میں اپنے کاموں کے سلسلے میں مزدوری کے لیے مزدور بلاتا ہوں لیکن خوشحالی کا عالم یہ ہے کہ بصد مشکل ہی کوئی مزدور ہاتھ آتا ہے۔
خیبر پختون خوا کے حوالے سے پرویز خٹک بھی شاید بہت غلط بات نہ کہہ رہے ہوں اس لیے کہ ان کے صوبے کے بے روزگار اور غریب لوگ ان کے صوبے میں رہتے ہی کب ہیں۔ ایسے تمام لوگ تو کراچی جیسے شہر کی جانب نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ رہی ان کو تعمیراتی کاموں کے لیے مزدوروں کے میسر نہ آنے کی شکایت تو کیا ہی اچھا ہو وہ یہ شکایت ’’ڈی ایچ اے‘‘ اور بحریہ ٹاؤن کے مالک ’’ملک ریاض‘‘ سے کریں جنہوں نے پورے خیبر پختون خوا کے غریبوں کو پالنے کا ٹھیکا اٹھایا ہوا ہے۔ کاش پرویز خٹک صاحب کو کبھی فرصت ملے اور وہ ڈی ایچ اے، بحریہ ٹاؤن اور کراچی کا دروہ کریں تو ان کے علم میں یہ بات آئے کہ ان کے صوبے کے غریب لوگ کس کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
بات یہی ہے کہ حالات ان نالائقوں کے قابو میں آ نہیں رہے ہیں لہٰذا وزیر اعظم سمیت ہر وزیر مشیر بہکی بہکی باتیں کیے جا رہا ہے۔ کوئی مہنگائی کی تلاش میں لگا ہوا ہے، کوئی ڈالر کے مہنگا ہو جانے کے فوائد گنوا رہا ہے تو کوئی ’’میں این آر او نہیں دوںگا‘‘ کے نعرے لگا لگا کر عوام کی بھوک مٹانے میں مصروف ہے۔ عوام کو بھی یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اگر ان پر اسی قسم کے بے عقلے اور لایعنی باتیں کرنے والے مسلط ہیں تو پھر وہ خود اپنا قصور بھی تلاش کریں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان یہی ہے کہ میں قوموں پر ان ہی جیسے حکمران سوار کر دیا کرتا ہوں۔ اگر قوم نے اپنی عقلوں پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا تو انہیں اپنے سوا اپنی عقلوں پر ماتم کرنے والا بھی کوئی نہ مل سکے گا۔