تیسرا حصہ
تحریک حماس کی عسکری قوتوں (السواعد الرضیتہ) نے مشترک طور پر زمینی و میدانی جہاد کے طریقہ کار کو طے کرتے ہوئے غاصب صہیونیوں کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں بار بار شکست قبول کرنے پر مجبور کر دیا۔ حماس عسکریت پسند، اسلامی سیاسی جماعت اور سماجی تنظیم ہے۔ حماس کی سیاسی قیادت کا بار اسماعیل ہانیہ کے بازوؤں پر آیا۔ جبکہ ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق اور خلیل الحیہ کو حماس کے نائب سربراہ اور یحییٰ السنوار، صالح العاروی، خلیل الحیہ، محمد نزال، ماہر عبید، عزت الرشق اور فتحی حماد کو جماعت کے سیاسی شعبے کے رکن مقرر کیا گیا۔ حماس انتظامی طور پر دو بنیادی گروہوں میں منقسم ہے: اول ’’معاشرتی امور‘‘ جیسے کہ اسکولوں، اسپتالوں اور مذہبی اداروں کی تعمیر وغیرہ۔ حماس نے مہاجرین کے کیمپوں اور گاؤں میں شفاخانے اور اسکول قائم کیے جہاں فلسطینیوں کا علاج کیا جاتا تھا۔ دوم فلسطین اور مسجد اقصٰی کی حفاظت کے لیے عسکریت پسند کارروائی۔ اس قسم کی کاروائیاں زیادہ تر فلسطین کی زیر زمین ’’عِزّْالدّین القِسام بریگیڈ‘‘ سر انجام دیتی ہے۔
موجودہ صورتحال کا مقابلہ بھی روح جہاد فی سبیل اللہ کو جاری رکھ کر کیا گیا۔ حالیہ معرکہ آرائیوں کے پیچھے بھی صہیونی افواج اور ان کی دہشت گرد تنظیموں کا ہاتھ ہے۔ غاصب اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ پورا احاطہ سیل کرکے وہاں فوج تعینات کردی۔ جرائم پیشہ صہیونی دشمن کی جانب سے فلسطین کے نہتے عوام کے خلاف ہر طرح کے ممنوع ہتھیاروں کا دن و رات استعمال کیا جانا اور مختلف علاقوں منجملہ بیت المقدس، شیخ جراح اور غزہ سمیت تمام علاقوں میں ہر قسم کے وحشیانہ ترین جرائم کا ارتکاب کیا جانا۔ اسی موقع سے حماس نے اپنی موجودگی کا ثبوت دیتے ہوئے اسرائیل کو ایک گھنٹے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے 3 مطالبات رکھے۔ اول شام کو 6 بجے سے پہلے اسرائیلی فوج کو مسجد اقصیٰ کے احاطے سے نکالا جائے۔ دوم گرفتار مسلمانوں کی فوری طور پر رہائی اور سوم شیخ الجراح میں جاری آپریشن فوری طور پر روکا جائے۔ حماس نے یہ بھی کہا کہ مطالبات نہ ماننے کی صورت میں حالات خراب ہوسکتے ہیں۔ اسرائیل نے حماس کے جائز مطالبات کو منظور کرنے سے انکار کیا اور شیخ الجراح میں وحشیانہ طاقت کا اندھا استعمال کرتے ہوئے آپریشن کو مزید تیز کردیا۔ جس کے نتیجے میں شام کو 6 بجے کے بعد غزہ کے مختلف مقامات سے حماس نے ایک سو سے زائد راکٹس اسرائیل کی جانب یکے بعد دیگرے فائر کیے۔ ان میں سے 70 فی صد راکٹس کو اسرائیلی ائر ڈیفنس سسٹم آئرن ڈوم نے فضا ہی میں تباہ کردیا۔ لیکن جو 30 فی صد راکٹس اسرائیل میں گرے اس سے اسرائیلیوں کے ہوش اڑ گئے۔ حماس اسرائیلی تنصیبات کو نشانہ بنایا جبکہ اسرائیل نے بدحواسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سویلین کی آبادی پر حملہ کیا۔ تاہم یہاں ایک خاص بات آئرن ڈوم کا فیل ہونا ہے۔ اس وقت جدید ترین آئرن ڈوم 2021ء میں مختلف تجربات کے بعد اسرائیلی فوج کے حوالے کیا گیا ہے اور ایسے 12 سسٹم اسرائیل کے مختلف مقامات پر نصب ہیں۔
حماس کئی برسوں سے ایران کے فراہم کردہ راکٹوں پر انحصار کرتی رہی ہے۔ غزہ میں ایرانی راکٹس سوڈان اور مصر کے ذریعے خرید کر اسمگل کیے جاتے تھے۔ تاہم 2019ء میں سوڈان سے عمر البشیر کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ کام مشکل ہوچکا ہے۔ کہا جاتا ہے حماس اب بیرونی تعاون کے ساتھ اپنے زیادہ تر میزائل غزہ پٹی ہی میں بنا رہی ہے۔ دوسری جانب حماس کے پاس دیسی ساختہ راکٹس ہوتے ہیں، جو مقامی ورکشاپس میں کئی عشروں پرانی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے خام لوہے یا لوہے کے پائپوں سے تیار کیے جاتے ہیں۔ حماس نے ابتدا میں جب راکٹ حملے شروع کیے تو ان کی رینج ایک کلومیٹر تھی، جو اب بہت بہتر ہوکر 250 کلومیٹر تک ہوچکی ہے، بلکہ اطلاعات کے مطابق حماس کے پاس اس وقت میڈیم اور لانگ رینج راکٹس بھی موجود ہیں۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ حماس کے پاس گائیڈڈ میزائل موجود ہیں۔ اس حوالے سے حماس نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر حملوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو وہ اس گائیڈڈ میزائل سے اسرائیل کے نیوکلیئر ری ایکٹر کو نشانہ بنائے گا۔ لہٰذا یہ بات واضح ہے کہ حماس دیسی ساختہ راکٹس سے آئرن ڈوم کا توڑ کرچکا ہے، تو یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر گائیڈڈ میزائل فائر ہوتا ہے تو اسرائیل میں کیسی تباہی آسکتی ہے۔ اسرائیل بھی اس خطرے کو سمجھتا ہے۔ اسی لیے اس نے امریکا اور مصر کے ذریعے اپنی پرانی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے جنگ بندی کروائی۔ لیکن اسرائیل نے کب معاہدے کا پاس و لحاظ رکھا ہے۔ مسلمانوں پر اب بھی حملے کررہا ہے۔ اسلام کہتا ہے اگر معاہدین عہد شکنی کریں تو ان سے جنگ جائز ہوجاتی ہے۔ جنگ بندی کے بعد اسرائیل کی عہد شکنی حماس کو جواز فراہم کررہی ہیں۔
روس کے نائب وزیر خارجہ اور صدر ولادیمیر پیوٹن کے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا کے خطے کے لیے خصوصی ایلچی میخائل بوگدانوف نے غزہ میں حماس اور اسرائیل کے مابین شدید لڑائی کے حوالے سے بیان میں کہا ہے کہ صہیونی فوج محصور علاقے غزہ میں بم باری کے دوران تحریک حماس کی عسکری صلاحیت کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکی اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی دفاعی صلاحیت حیران کن ہے، جنہوں نے راکٹوں سے اسرائیل کے نئے علاقوں کو نشانہ بنا کر اپنی دفاعی کار کردگی کا ثبوت پیش کیا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اسرائیل کا خیال تھا کہ وہ شدید بمباری سے غزہ میں حماس کی عسکری صلاحیت کو تباہ کردے گا، مگر اسرائیل اپنے اس مشن میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔
حماس کے سیاسی و سفارتی محاذ: حماس اپنی جدو جہد کے لیے عسکری و جہادی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ ابلاغی، سیاسی اور سفارتی محاذوں پر بھی کامیابی کے ساتھ کام کررہی ہے۔ 2006ء جنوری اور مارچ کو فلسطین میں پارلیمانی انتخابات اور بلدیاتی انتخابات میں حماس کو بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل ہوئی۔ قطر حماس کا سب سے اہم اتحادی اور اسے سب سے زیادہ مالی معاونت فراہم کرنے والا ملک ہے۔ حماس کو ترکی کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اس کے علاوہ حماس کو کئی غیر ریاستی اداروں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ مصر، تیونس اور مراکش سے حماس کے تعلقات کو نئی جہت ملی ہے۔ خیال رہے کہ چند روز قبل روس کے نائب وزیر خارجہ نے بین الاقوامی اقتصادی فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ فلسطینی تنظیموں حماس اور تحریک الفتح کی قیادت مسئلہ فلسطین کے کچھ اہم پہلوؤں پر بات چیت کے لیے عن قریب ماسکو کا دورہ کرے گی۔ چند عشروں کے دوران حماس نے عرب دنیا کے بیش تر ممالک سے تعلقات استوار کر رکھے ہیں۔ حالانکہ عرب بہار نے ان تعلقات کی نوعیت تبدیل کرنے میں اہم کردار بھی ادا کیا ہے۔ عرب بہار اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات نے حماس کے روڈ میپ کو تبدیل کرنے کی ضرورت بھی بڑھا دی ہے۔ جس کے نتیجے میں حماس کی اس محاذ پر ذمے داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ جب کہ عوامی بیداری کی لہر ’’عرب بہار‘‘ نے حماس اور دیگر فلسطینی تحاریک کو مل کر کام کرنے کا موقع فراہم کیے ہیں۔ ایک ایسے ماحول کی تیاری ضروری ہے جس میں عرب دنیا مجموعی طور پر عسکری مزاحمت کو اپنائے۔ اسی طور فلسطینی کاز کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔