’’فلسطین، اخوان المسلمون اور حماس‘‘

633

دوسرا حصہ

حماس کی کارکردگیاں: آج حماس دنیا میں فلسطینی مسلمانوں کی ایک نمائندہ تحریک ہونے کا کردار ادا کررہی ہے، جو فلسطینی منظرنامے پر اسلام کے نظریاتی تشخص کی نمائندگی بھی کررہی ہے۔ حماس نے قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اسلامی اصولوں و افکار اور تعلیمات و نظریات کو اپنا شعار و طریقہ کار بنایا ہے۔
فلسطین میں ’’اخوان المسلمون‘‘ کی فکری اور تحریکی جانشین کا رول ’حماس‘ نے ہی ادا کیا۔ یہی حماس فلسطین میں اخوان المسلمون کے تسلسل کا حق ادا کرتے ہوئے عوام کی نمایاں ترین جماعت بن گئی ہے۔ حماس نے اپنی تشکیل کے تھوڑے ہی عرصے بعد اپنے آپ کو ’’اخوان المسلمون‘‘ کا حصہ قرار دیا‘ تہذیبی، تاریخی، نظریاتی اور تحریکی و تنظیمی تعلقات کو اخوان کے ساتھ ضروری قرار دیا۔ تحریک حماس نے اپنی سرگرمیوں میں افراد، خاندان اور معاشرے کی تربیت کو سرفہرست قرار دیا ہے تاکہ اسلامی حکومت کی تشکیل کا راستہ ہموار کیا جا سکے۔ حماس کا ابتدا میں فلسطین پر قابض صہیونی فوجوں سے مقابلے کا خیال نہ تھا۔ تاہم بعد میں اس نے مسلح جدوجہد کا آغاز غاصب صہیونیوں کے بڑھتے ہوئے مسلسل ظلم و ستم کے نتیجے میں کیا۔ حماس کے فکر و نظریات کی ابتدائی بنیادیں 1930ء اور 1940ء کے عشروں میں رکھی گئیں جب اخوان المسلمون کی شاخیں یافہ، حیفہ، مقبوضہ بیت المقدس اور غزہ میں قائم کی گئیں۔ لیکن باضابطہ اعلان 1987ء میں کیا گیا۔ حماس عرب ممالک اور اسلام کی تحریکوں کے اثرات کا نتیجہ ہے۔ 1936ء میں فلسطین میں عزالدین القسام نے برطانوی استبداد کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ حماس کے قیام کے پیچھے اخوان المسلمون، 1948ء کے مقبوضہ فلسطین پر صہیونی یلغار کے اثرات اور 1968ء سے قبل ہونے والی جنگ اور اس کے بعد کے حالات کے نتیجے میں حماس کا قیام ناگزیر تھا۔
صہیونیوں کی احسان فراموشی: قضیہ فلسطین کے واحد حل کے متعلق اخوان المسلمون اور حماس کا مشترکہ نظریہ یہی ہے کہ جلاوطن کیے گئے اصل فلسطینیوں کو دوبارہ فلسطین میں لاکر بسایا جائے اور دنیا بھر سے نکالے گئے یہودیوں کو، جنہیں امن و سکون کی زندگی مسلمانوں نے پناہ دے کر میسر کی، ان مکار اور احسان فراموش یہودیوں کو جنہیں دنیا بھر سے بڑی بڑی سازشیں کرکے ریاست اسرائیل کے نام پر جمع کرکے فلسطین کی سرزمین پر لاکر بسایا گیا، انہیں فلسطین کی مقدس سرزمین سے بیدخل کردیا جائے تب جاکر فلسطین میں امن و سکون کا ماحول سازگار ہوگا۔
حماس کا موقف: حماس کا سب سے بنیادی موقف و مقصد صہیونی اسرائیلی فوج کو مقبوضہ فلسطین کی سرزمین سے بے دخل کرنا تھا۔ حماس کی منزل فلسطین کی آزادی ہے۔ آج بھی حماس کا موقف وہی ہے جو قیام کے وقت رہا۔ تحریک حماس کا بنیادی جْز عسکری مزاحمت ہی ہے۔ حماس کی تاریخ گواہ ہے کہ حماس نے کبھی عسکری مزاحمت ترک نہیں کی۔ حماس نے اتحادی بھی نہیں بدلے۔ حماس کے موجودہ رہنما فخر اسلام والمسلمین صہیونیوں کے دانت کھٹے کرنے والا مردحر اسماعیل ہانیہ نے اعلان کیا کہ ’’مسجد اقصیٰ ہمارا قبلہ اوّل، ہماری شناخت اور ہمارا ایمان ہے۔ ہم نے دشمن کو بارہا اپنے ناپاک ہاتھ مسجد اقصیٰ سے دْور رکھنے کی تنبیہ کی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ مزاحمت ہماری اسٹرٹیجک ترجیح ہے۔ موجودہ جدوجہد بیت المقدس، مسجد اقصیٰ، شیخ جراح اور مہاجرین کی واپسی کے حق کے لیے کی جا رہی ہے۔ القدس اور مسجد اقصیٰ صہیونیت کے خلاف جدوجہد کی بنیاد ہیں۔ حماس نے اپنے موقف کے ذریعے پوری دنیا کو یہ باور کرایا کہ مسئلہ فلسطین، فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ امت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔ باہر سے آئے ہوئے غاصب صہیونیوں کا فلسطین کی سرزمین پر کوئی حق نہیں ہے۔ اور قبلہ اول مسجد اقصیٰ، پر تمام عالم میں بسنے والے مسلمانوں کا حق ہے۔
حماس کے سابق سربراہ خالد مشعل کی تقریر محض تقریر نہیں بلکہ حماس کے وژن اور حماس کی سیاسی فکر کے حوالے سے اہم دستاویز بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس میں فلسطینی کاز کے حوالے سے حماس کی فکر اور اس کے اطلاق سے متعلق تصورات کا پتا چلتا ہے۔ خالد مشعل نے تقریر میں عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر کا تجزیہ کرتے ہوئے اس حوالے سے حماس کے ممکنہ کردار پر بحث کی ہے۔ آخر میں انہوں نے عرب بہار والے ممالک اور حماس کو درپیش چیلنجز کا ذکر بھی کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ حماس غاصب اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی۔ حماس فلسطینی بستیوں میں بسائی گئی یہودی ریاست کے وجود سے بھی انکاری ہے۔ مگر دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے متعلق حماس کا موقف یہ ہے کہ ’’حماس کا ایمان ہے کہ اسلام اتحاد، مساوات، تحمل، بردباری اور آزادی کا مذہب ہے۔ یہ انسانی ہمدردی اور تہذیب کا مذہب ہے یہ کسی کا مخالف نہیں جب تک کہ کوئی امت مسلمہ کے خلاف معاندانہ رویہ اختیار نہ کرے۔ حماس عیسائیوں کو بھی اپنا ہم وطن اور فلسطینی عوام کا جزولاینفک سمجھتی
ہے۔ انہیں سارے حقوق حاصل ہیں اوران پر بھی ساری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں‘‘۔
حماس کے نظریات: حماس کے مطابق فلسطین کی مکمل آزادی اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک فلسطینی، عرب اور اسلامی حلقے مل کر جدوجہد نہیں کرتے۔ ’فلسطینی حلقہ‘ جو صہیونیوں سے آزادی کی جنگ میں ہر اول دستہ ہے۔ اس کا کردار جہاد کے شعلے کو روشن رکھنا ہے تاکہ قومی پروگرام میں یہ مسئلہ زندہ رہے۔ ’عالم عرب حلقہ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ صہیونی منصوبہ پوری عرب امت کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ امت کے اندر عرب وہ قوت مضمر ہے جس پر آزادی کے کام کا انحصار ہے۔ ’عالم اسلامی حلقہ‘ مسئلہ فلسطین عرب کی طرح دنیا کے ہر مسلمان کا مسئلہ ہے۔ لہٰذا فلسطینی عوام اور عرب امت فلسطین کو آزاد کرانے اور صہیونی ریاست کے خاتمے کے لیے جو کوششیں کریں امت مسلمہ کو اس کی مدد کرنی چاہیے۔ یعنی تحریک فلسطین یا مسئلہ فلسطین کے صف اول پر فلسطینی مسلمان ہوں گے اور صہیونیت نواز اسرائیل ان کا ہدف ہوگا، پس پشت پر عالم عرب اور عالم اسلام ہوگا۔ اس تحریک سے عالم عرب اور ملت اسلامیہ کے درمیان ایک وحدت قائم ہوگی، یہی حماس کا طریقہ کار اور اہم مقصد ہے۔
حماس کی جہادی و عسکری مزاحمت: آخر وہ کون سا نسخہ کیمیا یا پر اسرار قوت حماس میں در آئی جس کہ نتیجہ میں صہیونیت نواز اسرائیل اور ان کے ہمنواؤں کا ٹولہ دہشت زدہ ہوکر شکست تسلیم کرنے پر بار بار مجبور ہوجاتا ہے۔ یہ اللہ کے دین کی مدد ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہی ہے، جس کے نتیجے میں دوبارہ حق آرہا ہے اور باطل مٹ رہا ہے۔ یہی راستہ محمد عربیؐ نے منتخب کیا، اور قیامت تک اسی راہ پر چلنے سے فتح و نصرت اہل ایمان کا مقدر ہوگی۔ اور آج حماس اس راستے پر گامزن ہے۔