نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’میری امت کا ایک گروہ قیامت تک دین پر ثابت قدم اور دشمن پر غالب رہے گا، ان سے اختلاف کرنے والے ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، سوائے اس کے کہ انہیں کچھ معاشی تنگدستی کا سامنا کرنا پڑے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آجائے گا اور وہ اسی حالت پر ہوں گے‘‘۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ کہاں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا:’’وہ بیت المقدس اور اس کے گرد و نواح میں ہوں گے‘‘۔ (مسند احمد)
ارض مقدسہ… فلسطین اور اہل ایمان: اسلام کے تیسرے متبرک مقام قبلہ اول مسجد اقصٰی اور نبی کریمؐ کے مقام معراج کی مقدس سرزمین فلسطین آج تک جہاد و شہادت کے نذرانے پیش کررہی ہیں۔ قرآن میں سرزمین فلسطین کو ’’ارض مقدسہ‘‘ اور ’’ارض مبارکہ‘‘ کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔ فلسطین متعدد پیغمبروں کی آمدو رفت کا مقام رہا ہے۔ یہاں بہت سے انبیائے کرام مدفون ہیں۔ فلسطین اور مسجد الاقصیٰ سیدنا محمدؐ کی معراج کا مقام بھی ہے۔ عبد الملک بن مروان کے زمانہ حکومت میں اس پتھر کہ جہاں سے پیغمبر اسلام نبی کریمؐ آسمان کی طرف گئے تھے اس مقام پر مسجد الصخریٰ یا قبۃ الصخریٰ کے نام سے ایک مسجد تعمیر کی گئی۔
خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کے دور میں اسلام فلسطین میں دوبارہ وارد ہوا۔ تاہم اس سرزمین کی فتح 13ھ میں خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروقؓ کی خلافت کے دوران سیدنا خالد بن ولید کی سربراہی میں ہونے والی ’’جنگ اجنابین‘‘ کے بعد عملی ہوسکی۔ بنو امیہ، بنو عباس، فاطمیوں، عثمانیوں تک فلسطین مسلمانوں کے زیرِ اقتدار رہا۔ 493ھ میں یورپین عیسائیوں نے صلیبی جنگوں کے ذریعے تقریباً ستر ہزار مسلمانوں کو شہید کرکے فلسطین پر 88 سال تک قبضہ جمائے رکھا۔ صلاح الدین ایوبی کی زیر قیادت جنگ حَطّین کے بعد فلسطین مسلمانوں نے دوبارہ حاصل کیا۔ فلسطین پر عثمانیوں کی حکومت 1918ء تک قائم رہی۔ برطانیہ نے اپنے تسلط کو 1922ء میں سرپرستی کا عنوان دیا۔ 1936ء میں فلسطینی عوام نے حکومت برطانیہ کے خلاف ایک بڑے انقلاب کا آغاز کیا، لیکن برطانیہ اور صہیونیوں کی مکاری و بدعہدی کے باعث اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ برطانیہ کی جانب سے فلسطین پر قبضہ 1948ء تک برقرار رہا۔
ارض مبارکہ میں اخوان کا کردار: فلسطین میں اخوان المسلمون کا کردار 1948ء میں اس وقت عروج پر پہنچ گیا جب ’’النکبۃ‘‘ کے موقع پر مصر، اردن، شام، یمن، عراق اور خلیج و دیگر ممالک سے اخوان کے رضاکار غاصب صہیونی اسرائیلیوں کے خلاف جنگ میں شامل ہوگئے۔ فلسطینی 1948ء کی جبری بے دخلی کو ’جاری نکبہ‘ (عربی میں النکبۃ) کا نام دیتے ہیں کیونکہ 1947ء سے 1949ء کے درمیان فلسطین کی 80 فی صد مقامی آبادی کو ہٹانے اور جبری طور پر جلاوطن کرنے کا عمل شروع ہوا تھا۔ نکبہ کا مطلب تباہی ہے۔
اسی اثناء میں فلسطین میں اخوان المسلمون کا قیام وجود میں آیا، اس دوران صہیونی منصوبے کے خلاف جہاد کے لیے زندگی کے ہر اہم شعبہ میں تنظیمی انفرا اسٹرکچر بھی قائم کیا گیا۔ اخوان المسلمون نے صہیونیوں کی جانب سے مسلمانوں میں پھیلائے گئے بے دینی کے ماحول اور غیر اسلامی افکار کو، اسلامی اصول و افکار کے ذریعے قدغن لگانا شروع کیا تاکہ اسرائیلی قبضے کے خلاف مضبوط بنیادوں پر جدوجہد برپا کی جائے۔ صہیونی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ عظیم تر اسرائیل کے قیام اور منصوبے میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ حماس اور اخوان المسلمون ہی ہیں۔ یہودیوں نے باضابطہ طور پر ایک طے شدہ سازش و منصوبے کے تحت فلسطینیوں کو اسلام سے منحرف کرنے کی سازش انجام دی مگر اخوان و حماس کی غیور اور اسلام پسند قیادت و کارکنان نے مسلم معاشرے کو ایک بار پھر اسلامی خطوط پر استوار کیا۔
غاصب صہیونیوں کا ظلم و جبر: اسرائیلی قابض حکام اور صہیونی ریاست کے تمام ادارے مسجد اقصیٰ اور پورے فلسطین پر حملوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ 1920ء سے پہلے تک اس علاقے میں 6 ہزار سے بھی کم یہودی آباد تھے۔ فلسطینی مسلمانوں کی زمینوں پر قبضے کے لیے 20 سال میں 22 ہزار سے زائد فلسطینیوں کا قتل عام کیا گیا، ان زمینوں پر یہودیوں کی نوآبادیاتی بستیاں قائم کی گئی۔ اور اس طرح سے برطانیہ اور امریکا کی مدد سے ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔ دنیا بھر میں یہودی محض ایک کروڑ کے آس پاس ہیں، جن میں 60 لاکھ سے زائد غاصبانہ اسرائیل میں رہتے ہیں۔
غاصب صیہونیوں نے بارہا وقتاً فوقتاً فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی ethnic cleansin کی۔ مسلمانوں کو جلاوطن اور بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا۔ 1948ء میں اسرائیل نے 34 مرتبہ قتل عام کیا کہ جس میں سے زیادہ مشہور ’’دیر یاسین‘‘ کا قتل عام ہے۔ اس قتل عام میں 254 افراد کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ اسرائیل کے دیگر جرائم میں سے 1956ء میں ’’خان یونس‘‘ کا قتل عام ہے۔ اس میں 250 فلسطینیوں کی جان لی گئی۔ تاریخ کے گھناؤنے جرائم میں سے ایک ’’صبرا و شتیلا‘‘ کا قتل عام ہے۔ یہ حادثہ 1982ء میں پیش آیا اور اس میں 3297 فلسطینی مسلمان عورتیں اور بچے شہید کیے گئے اور اس قتل و غارت گری و مسلمانوں کی نسل کشی اور نکبہ کا سلسلہ آج تک قائم ہے۔
کچھ سال پہلے فلسطینی قیدیوں کے امور کی نگراں کمیٹی کا کہنا ہے کہ 2000ء کے بعد سے صہیونی فوج نے 16ہزار سے زائد فلسطینی بچوں کو حراست میں لیا ہے۔ یہ بھی کہا کہ دستاویزی اور ریکارڈ شدہ رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ صہیونیوں نے حراست میں لیا گئے 65 فی صد سے زیادہ فلسطینی بچوں کو اس عرصے کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس وقت عوفر، مجدو اور متعدد دیگر صہیونی جیلوں میں 140 سے زائد فلسطینی بچوں کو انتہائی بدترین حالات میں رکھا گیا ہے۔ صہیونیوں کے اسی نوعیت کے گناہوں اور ظلم و جبر کی پاداش میں حماس جیسی تحریک کا وجود عمل میں آیا۔ انہیں مراحل کے دوران حماس کا ’’جہاد‘‘ کا جامع منصوبہ فکری اور تنظیمی طور پر متشکل ہوا۔
حماس کا قیام و قربانیاں: حرکۃ المقاومۃ اسلامیۃ یعنی حماس فلسطین کی سب سے بڑی اسلامی تحریک مزاحمت ہے۔ حماس اپنے عربی نام ’’حرکۃ المقاومۃ اسلامیۃ‘‘ کے حروف کا مخفف ہے۔ اس نے اپنے قیام کا باقاعدہ اعلان 15 دسمبر 1987ء میں باقاعدہ تحریک انتفاضہ شروع ہونے کے بعد کیا، اس دن حماس کا مجموعی طور پر دوسرا انتفاضہ پھوٹا۔ حماس نے اپنا منشور 18 اگست 1988ء جاری کیا۔ حماس کے منشور اور پروگرام کو 36 آرٹیکل اور اس کی ذیلی شقوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ حماس کے قیام و تاسیس کا بنیادی رول مجاہد شیخ احمد یاسین شہید جن کا تعلق اخوان المسلمون سے تھا اور غزہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر جلیل محمد صیام نے نامساعد حالات میں ادا کیا۔ روح رواں و بانی حماس اس معذور مرد مجاہد کو بزدل اسرائیلیوں نے نماز فجر کے وقت راکٹ داغ کر شہید کیا۔ ان کے بعد ان کے جانشین عبدالعزیز رنتیسی کو شہادت نصیب ہوئی۔ اسرائیل حماس کی قیادت سے اتنا خائف و ڈرا رہتا ہے کہ حماس کی اب تک کی تمام بڑی قیادت کو سازش و بزدلی کے تحت سب کو شہید کروا دیتا ہے۔
اپریل 1988ء کو حماس کے خلاف وسیع پیمانے پر کریک ڈائون کی ابتدا ہوئی۔ اس کریک ڈائون میں حماس کے مرکزی قیادت اور کارکنوں کی بڑی تعداد کو حراست میں لیا گیا۔ حماس کے خلاف دوسرا کریک ڈائون 1989ء میں شروع کیا گیا اور اس میں حماس کی مزید قیادت اور کارکنوں کی گرفتاریاں کرکے جیلوں میں ڈالا گیا۔ صہیونیوں کو محسوس ہوگیا کہ اب کریک ڈاؤن کے نتیجے میں حماس ختم ہوگی مگر اس کے کچھ ہی عرصے بعد صہیونیوں کو اس وقت کاری ضرب لگی جب غزہ سے تعلق رکھنے والے حماس راہنما ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے عمان میں حماس کے سیاسی دفتر کے قیام کا اعلان کیا۔ کریک ڈاؤن کے باوجود بھی ’’حماس‘‘ کے پائے استقامت میں جنبش نہ آئی اور اپنے مخصوص علاقے’’غزہ‘‘ میں یہ لوگ ثابت قدم رہے۔ حماس نے اپنے اعلیٰ قیادت سے لے کر ایک عام کارکن تک کا خون مسجد اقصیٰ کی بازیابی اور فلسطینی عوام کی آزادی پر قربان کیا اور قابض صہیونی استعمار کے تمام ہتھکنڈے ناکام بنا دیے۔
(جاری ہے)