ماہِ رواں کی تیئس تاریخ کے اخبارات کی شہ سرخی ملاحظہ فرمائی ہوں تو آپ جان چکے ہوں گے کہ وفاقی کابینہ نے قرضہ حاصل کرنے کی غرض سے قومی شاہراہیں اور ہوائی اڈے گروی رکھنے کی منظوری دے دی ہے۔ یوں اسلام آباد، پنڈی بھٹیاں، پشاور موٹر ویز، اسلام آباد ایکسپریس ویز، اور لاہور اور ملتان ائرویز گروی رکھے جائیں گے۔ گو معاشی نمو اور مستقبل کے اشاریوں کے حوالے سے حکومتی ماہرین کے دعوے اور تخمینے خوشگوار تاثر قائم کرتے ہیں مگر عالمی اقتصادی اداروں کی رپورٹیں اور ہمارے سرکاری ماہرین کے بیانات عام طور پر ایک دوسرے سے متضاد دکھائی دیتے ہیں۔ وفاقی بجٹ سے قریب ایک ماہ پہلے نیشنل اکائونٹس کمیٹی میں اقتصادی شرح نمو 3.94 فی صد کا اعلان کیا گیا تو اس وقت بھی یہ سوال کیا جارہا تھا کہ مذکورہ اعداد نہ اسٹیٹ بینک کے اندازوں سے مطابقت رکھتے ہیں اور نہ ہی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اعداد وشمار سے ملتے تھے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال ورلڈ بینک کی ’’پاکستان میکرور پاورٹی آئوٹ لک‘‘ میں پیش کیے گئے۔ غربت، شرح نمو اور مہنگائی کے اعداد وشمار میں دکھائی دیتی ہے۔ کورونا کے معیشت پر اثرات کے تناظر اور اس وبا پر قابو پائے جانے کے امکانات کے معاشی اثرات اور تجزیے پر مبنی یہ رپورٹ گزشتہ اختتام ہفتہ پر جاری کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے دوران پاکستان میں غربت میں اضافے کی شرح 4.4 فی صد سے بڑھ کر 5.4 فی صد ہوگئی ہے اور مزید بیس لاکھ سے زائد افراد خط ِ غربت سے نیچے چلے گئے جبکہ 40 فی صد کنبوں کو درمیانے سے لے کر انتہائی درجے کے غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ گزشتہ برس مئی میں لاک ڈائون ختم ہونے سے صنعتی پیداوار اور کاروباری اعتماد دونوں کورونا سے پہلے کی سطح پر آچکے تھے، چنانچہ کورونا سے متاثرہ بہت سے صنعتوں کے کارکنان کام پر واپس آنا شروع ہوگئے، مگر وہ شعبے جو سب سے زیادہ غریب آبادی کی افرادی قوت کو سمیٹے ہوئے ہیں، جیسا کہ زراعت وہ بدستور بحالی کے منتظر ہیں اور یہاں غربت کا مسئلہ بدستور اپنی جگہ پر موجود ہے۔ یہ منظر نامہ ہمارے ان وزرا کے دعووں کے برعکس ہے جو یہ کہتے ہیں کہ عوام کی قوت ِ خرید میں اضافہ ہوا ہے۔ کیا حکومت غربت کی اصل تصویر کو چھپانے کے لیے 2018-19ء کے اعداد وشمار پیش کررہی ہے؟ غربت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے درست منصوبہ بندی بنیادی شرط ہے مگر یہ کام درست اعداد وشمار کے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن ہمارے ہاں اس نوعیت کا تخمینہ سدا سے بے قاعدگی کا شکار ہونے کی وجہ سے معیارِ زندگی اور انفرادی معاشی مسائل کے درست اندازے تک حکومت تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ مثال کے طور پر زرعی شعبے یا دیگر انفارمل شعبوں کے ساتھ وابستہ افرادی قوت کی تعداد اور آمدنی کے حوالے سے ہمارے ہاں درست ڈیٹا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ چنانچہ اس طبقے کی غربت کو ناپنے کے لیے جو کچھ بھی کیا جاتا ہے وہ محض اندازوں پر ہی ہوسکتا ہے اور ہر حکومت حتی الوسع یہ کوشش کرتی ہے کہ غربت کی شرح کو گھٹا کر پیش کیا جائے۔ ان حالات میں یہ ماننا مجبوری ہے کہ غربت کی جو صورتحال حکومت پیش کررہی ہے ممکن ہے صنعت اور خدمات کے شعبوں کے کارکنوں کی ملازمتوں کے مواقع کا حساب لگا کر اسے پیش کیا گیا ہو مگر افرادی قوت کی وہ بہت بڑی تعداد جو زراعت یا ایسے ہی دیگر شعبوں سے تعلق رکھتی ہے اس کے لیے مہنگائی کی تازہ لہر اور پیداوار کی قلت سے مشکلات میں جس قدر اضافہ ہوا ہے حکومت اس کا صحیح اندازہ کرنے سے قاصر ہے۔
خط ِ غربت سے نیچے کی آبادی کو حکومتی امداد اور آسرے کی ہمیشہ سب سے زیادہ ضرورت رہی ہے۔ فی الحقیقت حکومت تخفیف ِ غربت کے لیے جو اقدامات کرتی ہے، ان میں سب سے زیادہ حصہ اس بریکٹ کے افراد کو ملنا چاہیے، مگر بدقسمتی سے یہ طبقہ، جو ہمیشہ حکومتوں، معاشی منصوبہ سازوں اور ماہرین کی نظروں سے دور رہتا ہے سب سے زیادہ حق دار ہونے کے باوجود تخفیف ِ غربت کے منصوبوں میں سب سے کم حصہ پاتا ہے۔ غربت کے خاتمے کا کوئی ماڈل اس وقت تک کارگر ثابت نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس میں ’حق بہ حق دار رسید‘ والا معاملہ نہ ہو اور یہ اسی صورت ممکن ہوگا جب تخفیف غربت کے
منصوبے ٹارگٹڈ سبسڈی یا امدادی منصوبوں پر مبنی ہوں اور ان منصوبوں میں شفافت پائی جائے گی۔ مثال کے طور پر بجلی کے یونٹس اور یوٹیلٹی اسٹورز پر رعایتی نرخوں سے سودا سلف پر حکومت بھاری اخراجات کرتی ہے، مگر ان میں سے کوئی سہولت بھی کم آمدنی والے افراد کے لیے بالخصوص نہیں۔ اس سبسڈی کی رقم کا مقصد اگر کم آمدنی والے افراد کو مدد فراہم کرنا ہے تو یہ مقصد پورا نہیں ہورہا۔ یہ مقاصد اسی صورت پورے ہوسکتے ہیں جب سوشل اور معیارِ زندگی و وسائل آمدنی کے سرویز باقاعدگی سے کیے جائیں تاکہ اداروں کے پاس درست ڈیٹا موجود ہو۔ اسی ڈیٹا کی مدد سے یہ فیصلہ کیا جاسکے گا کہ کہاں اور کس کس کو امداد کی ضرورت ہے۔ ملک میں تخفیف ِ غربت کے کسی پائیدار نظام کے لیے یہ اقدامات ناگزیر معلوم ہوتے ہیں کیونکہ ان کی عدم موجودگی میں کیے گئے اقدامات اندھیرے میں تیر چلانے والی بات ہے۔ 17 جون کو جاری کی گئی ورلڈ بینک کی اسی رپورٹ میں پاکستان کے آئندہ مالی سال کے حوالے سے جن چیلنجز کی نشان دہی کی گئی ہے ان کی جانب توجہ دینا بھی حکومت اور اس کے معاشی منیجرز کی اہم ذمے داری ہے۔ مثال کے طور پر جی ڈی پی کی شرح نمو کو دیکھ لیں، ہماری حکومت 4.8 فی صد شرح نمو کے حساب سے چل رہی ہے جبکہ ورلڈ بینک 2 فی صد شرح نمو کا تخمینہ لگا رہا ہے۔ شرح نمو میں یہ دوگنا سے زیادہ فرق کہاں ہے اور کیونکر ہے، بالفرض اگر حکومت کے نزدیک ورلڈ بینک کو تخمینہ غلط ہے تو اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ ورلڈ بینک پہ اس کی غلطی کو واضح کرتے ہوئے اس سے اپنے حق میں بیان جاری کروائیں۔