کسی کو نہیں معلوم کہ ڈاکٹر عافیہ پر گزشتہ 18 سال میں کیا کیا مظالم ڈھائے گئے ہیں؟ عافیہ کے اہل خانہ کو صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ وہ زندہ ہے، لیکن کس حالت میں؟ یہ نہیں بتایا جاتا۔ ڈاکٹرعافیہ گزشتہ 10 سال سے ایف ایم سی (فیڈرل میڈیکل سینٹر) کارزویل جیل میں قید ہے جو خوف و دہشت کا گھر کہلاتا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ سے ان کے اہل خانہ کا چار سال سے براہ راست کوئی رابطہ نہیں ہے۔ عافیہ سے عدم رابطہ کی وجہ سے ڈاکٹر عافیہ کے اہل خانہ تشویش میں مبتلا ہیں۔ گزشتہ سال جب ساری دنیا لاک ڈائون کی وجہ سے بند تھی اور ڈاکٹر عافیہ جس جیل میں اس وقت اور آج بھی قید ہے وہاں کورونا وائرس پھیلنے اور اس کے نتیجے میں قیدیوں کی اموات کی خبریں آنا شروع ہوئیں تو ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی کہ حکومت و وزارت خارجہ عافیہ کی خیریت سے اہل خانہ کو آگاہ کرے اوراس کو وطن واپس لانے کے لیے اقدامات کرے کیونکہ دنیا کے کئی ممالک نے جن میں ایران بھی شامل تھا جس کے امریکا سے ہمیشہ تعلقات شدید کشیدہ رہتے ہیں، اپنے قیدیوں کو وطن واپس بلا لیا تھا یا پھر اپنے سفارتخانوں میں قرنطینہ کرلیا تھا۔ مگر ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود وہ پٹیشن اب تک زیرسماعت ہے جبکہ ایسی پٹیشن کا فیصلہ تو فوری طور پر ہوجانا چاہیے تھا۔ اس جیل میں نہ صرف عافیہ کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا جاتا ہے بلکہ پھر اسی کو مکاری و پراسرار طریقے سے ذمے دار ٹھیرا دیا جاتا ہے۔ جس کی تفصیلات سے عافیہ نے ہوسٹن میں تعینات پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی کو مئی 2018 ء میں آگاہ کردیا تھا۔
ڈاکٹرعافیہ کے بے قصور ہونے سے متعلق بے شمار مواد موجود ہے مگر کچھ حقائق اور شواہد ایسے ہیں جس کے بعد عافیہ کا اب تک قید میں ہونا انسانیت کے لیے باعث شرمندگی بن گیا ہے جس کا خاتمہ اب امریکا اور پاکستان کی حکومتوں کو مل کر کردینا چاہیے۔ ڈاکٹر عافیہ صرف اور صرف پاکستانی شہری ہیں۔ کوئی بھی ان کی دہری شہریت کا کوئی ثبوت منظرعام پر نہیں لاسکا ہے اس لیے جب بھی کسی نے ڈاکٹر عافیہ پر دہری یا امریکی شہریت کا الزام عائد کیا ہے تو اہل خانہ کی طرف سے ہمیشہ سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ ابتدائی تعلیم پاکستان میں حاصل کر کے اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا چلی گئی تھیں۔ انہوں نے 1995ء میں ایم آئی ٹی سے گریجویشن کیا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری برینڈیس یونیورسٹی سے 2001ء میں حاصل کی۔
نائن الیون کے حملوں کے بعد ڈاکٹرعافیہ صدیقی کا ’’پراسرار کیس‘‘ بین الاقوامی سطح پر بہت مشہور ہوا تھا۔ پہلے اسے امریکا میں ایک جج کے سامنے پیش کیا گیا جس نے عافیہ کا کیس سننے سے انکار کردیا۔ اس جج نے عافیہ کو پاکستانی شہری ہونے کی بناء پر امریکا منتقل کرنے اور مقدمہ چلانے کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ اس جج کا موقف تھا کہ ایک پاکستانی خاتون کو بغیر کسی سفری دستاویزات کے کیسے امریکا لایا جاسکتا ہے؟ اس کا موقف تھا کہ یہ واضح طور پر ایک غیرقانونی عمل ہے اور اسے اس کے وطن واپس بھیج دیا جائے۔ اس وقت عافیہ شدید زخمی تھی اور اسے علاج معالجہ کی ضرورت تھی۔ اسے عدالت میں اپنے دفاع کے لیے قانونی مدد کی بھی ضرورت تھی جو اسے اس وقت نہیں مل رہی تھی۔ اس کے بعد دوسرے جج رچرڈ برمن کو لایا گیا۔ ایک نیا پراسیکیوٹر، پریت بھرارہ بھی ٹیم میں شامل ہوا اور اس ٹیم نے عافیہ پر کیس دوبارہ کھول دیا۔ عافیہ پر جو الزامات لگائے گئے تھے وہ ناقابل فہم تھے۔
ڈاکٹر عافیہ کو 31 مارچ، 2003ء کو کراچی سے اس کے تین کمسن بچوں سمیت اغواء کرکے امریکیوں کے حوالے کیا گیا تھا تو اس پر 9/11 کے حملوں میں معاونت کے الزامات عائد کیے گئے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خالد شیخ محمد نے جس پر ’’نائن الیون حملوں کے اصل منصوبہ ساز‘‘ کا الزام عائد کیا گیا تھا، القاعدہ سے تعلق کے سلسلے میں اپنی گرفتاری اور پرتشدد تفتیش کے بعد مبینہ طور پر عافیہ کا نام ایک کورئیر اور فنانسر کے طور پر لیا تھا۔ خالد شیخ محمد سے جب تفتیش کی جارہی تھی تو وہ متواتر واٹر بورڈنگ کے عمل کے دوران کہہ رہا تھا ’’اللھم انی اسئلک العفوا والعافیہ‘‘۔ یہ ایک دعا ہے جو وہ اپنے اوپر ہونے والے تشدد کو برداشت کرنے کے لیے پڑھ رہا تھا۔ چونکہ بے چاری ’’عافیہ‘‘ کا نام بھی اس دعا کے آخر میں آتا تھا اس وجہ سے وہ پھنس گئی۔ بدقسمتی سے عافیہ کے پھنس جانے کی ایسی ہی وجوہات ہیں۔
عافیہ کے مقدمہ سے منسلک امریکی خاتون وکیل ایلین وائٹ فیلڈ کا کہنا ہے کہ ’’عافیہ کس طرح پانچ، چھ امریکی فوجی جوانوں کے ساتھ مسلح تصادم کر سکتی تھی؟ یہ مبینہ واقعہ کیسے رونما ہوا؟ اور عافیہ کو کیسے گولی ماری گئی؟ اس پر دہشت گردی کا الزام کیوں لگایا گیا؟ وہ سوال کرتی ہیں کہ وہ افسران تفتیشی کمرے میں کیوں گئے تھے؟ بہت سارے سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں۔ جب تک الزام ثابت نہ ہو جائے ملزم کے بارے میں بے گناہی کا گمان کیا جاتا ہے جبکہ عافیہ کو سزا سنائی گئی۔
امریکی فوجی اہلکاروں کو ہلاک کرنے کی کوشش کرنے کے الزام پر ڈاکٹر عافیہ کو 86 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ استغاثہ نے ہاتھ سے لکھے نوٹ استعمال کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ گرفتاری کے وقت انہیں اپنے پرس میں لے کر جارہی تھی، جن میں بم بنانے کی ترکیبیں، نیو یارک شہر پر حملوں کے مقامات کی نشاندہی سمیت دیگر تفصیلات بھی شامل ہیں۔ عدالتی ریکارڈ کے مطابق وہ سوڈیم سائنائیڈ ایک زہریلا مادہ بھی لے جانے والی تھی۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ وہ اپنے خلاف تمام ثبوت پرس میں رکھ کر گھوم رہی تھی۔ اگر اس میں سے کوئی بات بھی سچ تھی تو اس پر دہشت گردی کا مقدمہ چلایاجانا چاہیے تھا۔ کیا ایسا کرنا ان کے لیے مشکل تھا؟ عافیہ پر دہشت گردی کے جو الزامات عائد کیے گئے تھے اگر مقدمہ بھی ان الزامات کی بنیاد پر چلایا جاتا تو ساری دنیا خاموش ہوجاتی کہ وہ تو دہشت گرد ہے مگر یہاں تک کہ جج برمن بھی اس پر دہشت گردی کا الزام عائد نہیں کرسکے کیونکہ اس میں سے کوئی بھی الزام سچ نہیں تھا۔ وہ ساری کہانیاں امریکی زرد صحافت پر مبنی تھیں۔
امریکا میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد عافیہ 2002ء میں وطن واپس لوٹی تھی۔ وہ اپنے تین بچوں کے ساتھ2003ء میں اسلام آباد اپنے ’’انقلابی تعلیمی نظام‘‘ کے ساتھ سینیٹ کے چیئرمین سے ملنے کے لیے اسلام آباد جارہی تھی۔ اس وقت احمد کی عمر 5 سال، مریم کی عمر 3 سال اور سلیمان کی عمر صرف 6 ماہ تھی۔ مگر اسے راستے ہی سے اغوا کر لیا گیا اور پھر پانچ سال تک کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے؟ 2008ء میں برطانوی صحافی یوان ریڈلے نے بگرام میں ایک پاکستانی خاتون قیدی نمبر 650کا سراغ لگایا۔ گوانتا ناموبے کے سابق قیدی معظم بیگ کا کہنا ہے کہ جب میں بگرام جیل میں تھا تو مجھے ایک عورت کے چیخنے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ تفتیشی کمرے میں کوئی عورت چیخ رہی ہوتی تھی۔ جب برطانوی صحافی نے تحقیق کی اور جاننے کی کوشش کی تو انہیں پتا چلا کہ یہ تو عافیہ صدیقی ہے۔ انہوں نے پاکستان آ کر پریس کانفرنس کی۔ اس وقت ہمارے موجودہ وزیراعظم عمران خان ’’عافیہ کاز‘‘ کے چمپئن بنے ہوئے تھے۔ اس وقت عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ’’وہ میں ہی ہوں گا جو عافیہ کو رہا کراؤں گا‘‘۔ بدقسمتی سے اب اس قومی سانحے کو وقوع پزیر ہوئے 18 سال گزر گئے ہیں۔ ان 18 سال میں سے 3 سال عمران خان کی حکومت میںگزرے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے عافیہ مظلومیت کی علامت بن گئی ہے۔
ہر الیکشن میں عافیہ ایک اہم ایشو ہوتی ہے کیونکہ اسے وطن واپس لانا ہمیشہ ایک پرزور عوامی مطالبہ رہا ہے۔ پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس نے سفاکانہ طور پر تین لوگوں کا دن دہاڑے لاہور کی ایک سڑک پر قتل کردیا تھا بعد میں اسے امریکی دبائو پر جس طرح ایک خالص اسلامی قانون کا سہارا لے کر رہا کردیا گیا تھا وہ ہر محب وطن پاکستانی کے لیے اذیت کا باعث بنا تھا۔ اگر دیت میں عافیہ کو رہا کرالیا جاتا تو یہ پاکستانیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے مترادف بن جاتا۔ قتل کرنے کے باوجود ریمنڈ ڈیوس اپنے وطن ہیرو بن کر گیا جبکہ عافیہ نے کسی کو قتل نہیں کیا بلکہ اسے گولی ماری گئی تھی پھر بھی وہ 18 سال سے قید ہے۔ تمام فرانزک شواہد نے عافیہ کو بری کردیا ہے۔ اسے نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ ایک عمدہ مسلمان عورت تھی جس کا واحد مقصد تعلیمی انقلاب کے ذریعے اپنے لوگوں کے لیے تبدیلی لانا تھا۔