۔17جون 2021 کی خبر جس میں محترم چیف جسٹس آف پاکستان جناب گلزار احمد کہا کہ کراچی کے خلاف بہت بڑی سازش ہوئی اس کو تباہ کردیا گیا ہے۔ غیر قانونی تجاوزات کے خلاف کارروائی سے معلق بہت سخت قسم کے ریمارکس دیے اور کے ایم سی اور کے ڈے اے کے عملے کے خلاف بھی کافی سخت ریماکس دیے خبر کی تفصیل میں بہت ساری باتیں انہوں درست کہیں ہیں مگر عدالت عظمیٰ کا احترام کرتے ہوئے۔۔۔ آپ نے یہ کہا کہ کراچی میں آفت آتی ہے تو کوئی نظر نہیں آتا، پچھلے سال کی بارشوں میں ہم دیکھ لیا۔ پہلے ہم دیکھتے تھے کہ رات 3 بجے کچی پکی سڑکیں دھل جاتی تھیں بچّوں کے اسکول جانے سے پہلے کچرا اٹھا لیا جاتا تھا۔ ایک تو پچھلے سال کی بارشوں کا ذکر محترم چیف جسٹس صاحب نے کیا جس میں ان کو شہر میں کوئی کام کرتا نظر نہیں آیا اس لحاظ سے یہ بات تو درست ہے کہ جو لوگ تیس سال سے سٹی گورنمنٹ میں موجود ہیں یہ ان کی ذمے داری تھی کہ بارش میں ڈوبتے ہوئے اس شہر کو بچانے کے لیے نکلتے شہریوں کی خدمت کرتے مگر پوری انتظامیہ اس طرح غائب تھی جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوتے ہیں اس پر سے طرفہ تماشا کہ ایک صاحب نے یہ کہ کر اپنا دامن بچایا کہ زیادہ بارش ہوتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے۔ پورے شہر کے انتظامی حالات کے خراب ہونے کا چیف جسٹس آف پاکستان نے بڑی شدو مد کے ساتھ ذکر کیا ہے اور متعلقہ اداروں کے لتے لیے ہیں۔ اور انہیں اس خرابی کا ذمے دار بتایا ہے مگر تعجب کی بات ہے بارشوں کے درمیان جب ادارے غائب تھے کوئی شہر کا پرسان حال نہ تھا کوئی تو تھا جو سڑکوں پر موجود تھا لوگوں کو ڈوبنے سے بچانے کی کوشش کررہا تھا گٹر کے گندے پانی میں اپنی جان کی پروا کیے بغیر بچّوں کو اسکولوںاور مدرسوں سے نکال رہا تھا، پریشان حال لوگوں کے درمیاں پکے پکائے کھانے کی تقسیم کررہا تھا۔ جب نیا ناظم آباد پورا ڈوبا، لوگ اپنے مکانوں کی چھتوں پر کئی دنوں تک محصور ہوگئے ایسے میں کراچی کے حقیقی نمائندوں نے اپنا فرض نبھایا۔صرف غریب بستیوں میں نہیں بلکہ پوش علاقوں میں بھی بارش کا پانی گھروں میں داخل ہو ا الخدمت کے رضا کاروں نے دن رات ان کی خدمت کی۔
جب پانی کی قلت کے مارے لوگ ادھر ادھر پانی کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے۔ کراچی الیکٹرک کے ستائے لوگ جب 16 گھنٹے کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ اور اوور بلنگ کے ستائے لوگ لمبی لمبی قطاروں میں دھکے کھارہے تھے تب بھی کراچی کا حقیقی نمائندہ حافظ نعیم الرحمن ان کی خدمت، ان کے اس مسئلے حل کے لیے اپنے کارکنان کے ساتھ کمر بستہ تھا اور آج بھی ہے۔ وہ شہر جس کا آپ نے تذکرہ کیا کہ صبح بچّوں کے اسکول جانے سے پہلے کچرا اٹھا لیا جاتا تھا۔۔۔ جب اس شہر کے مینڈیٹ لینے والوں نے اس کو کراچی سے بدل کر کچراچی بنا ڈالا تب بھی اس شہر کے حقیقی نمائندے اپنے قائد کے ساتھ سڑکوں پر اس کی صفائی کا مطالبہ ان لوگوں سے کرتے نظر آئے جو روز مّرہ خدمت کے اداروں میں بیٹھ کا ٹائم پاس کرتے ہیں، جو تنخواہ کے ایم سی سے لیتے ہیں اور کام یونٹ اور سیکٹروں میں کرتے ہیں جب شہر کو چوروں، ڈاکوؤں اور راہزنوں کے حوالے کرکے انتظامیہ جو شہریوں کے جان ومال کے تحفّظ کا حلف لیتی ہے۔ خواب خرگوش کے مزے لیتی رہی اور شہری لٹتے رہے اور مجھے یاد ہے ایک نوجوان جس کا نام طلحہ اسلام تھا جو یونیورسٹی جارہا تھا، حافظ قرآن تھا اس کو دن دھاڑے ڈاکوؤں نے موبائل چھیننے کے دوران گولیوں کا نشانہ بناڈالا۔ آج کئی مہینے گزرجانے کے بعد بھی اس کے قاتل دندناتے پھر رہے ہیں اور کسی دوسرے طلحہ اسلام کی تاک میں ہیں۔ اس مظلوم خاندان کو آخر انصاف کب ملے گا؟۔۔۔ جن خرابیوں کا ذکر آپ نے اپنے ریمارکس میں کیا آپ کی طرف سے جب یہ بات آئی کہ مجھے اس وقت کوئی نظر نہ آیا تو افسوس ہوا آپ نے یقینا دیکھا ہوگا ان تمام مسائل کے حل کے لیے ایک متحرک ملک کا سب سے منظم فلاحی ادارہ جس کا نام الخدمت، جماعت اسلامی اور اس کا امیر شہر حافظ نعیم الرحمن ہے۔۔۔ کیا قباحت تھی کہ آپ برملا نام لے لیتے۔۔۔ ہاں شاید انسان کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں جو زبان کو روک لیتی ہیں وہ بات کہنے سے جو دل میں باتیں ہوتیں ہیں۔۔۔ شاید آپ کو یاد ہو آپ کے پیش رو چیف جسٹس آف پاکستان نے تو کہا تھا کہ اگر آئین کی دفعہ باسٹھ تریسٹھ پر عمل کیا جائے تو سوائے سراج الحق کے تمام اراکین اسمبلی نااہل قرار پائیں گے۔ یاد رکھیے انصاف فراہم کرنا ہی جس ادارے کی پہچان ہو اور وہی حقیقت کو چھپا لے تو پھر وہ ہوتا ہے جس کا تصّور محال ہے۔ آج بھی اس شہر کے حق کے لیے جماعت اسلامی ’’حق دو کراچی کو‘‘ کی تحریک چلارہی ہے۔ کراچی الیکٹرک کے ظلم کے داستان کون نہیں جانتا ہے آپ کی عدالتوں میں بھی اپیل دائر ہے سماعت پر سماعت ہورہی ہے سب کچھ دیکھنے اور جاننے کے باوجود اس کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں ہورہا ہے کس طرح یہ ادارہ کراچی کے عوام کی جیبوں پر دن دھاڑے ڈال رہا ہے اور تمام ادارے اور بالخصوص عدالتیں خاموش تماشائی بنی ہیں۔ لیکن ایک دن آئے گا جب مظلوموں کی فتح ہوگی اور ظالم کیفر کردار تک پہنچے گا۔ ضروری نہیں کہ عدالت انصاف کرے تو انصاف ہوگا، انصاف کے فیصلے بعض اوقات آسمانوں سے بھی آ جاتے ہیں۔ رب کائنات بڑی قدرت والا ہے۔