کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی) سندھی مسلم ہائوسنگ سوسائٹی شارع فیصل کے پلاٹ نمبر 193 اے پر بنے 12 منزلہ نسلہ ٹاور کے 44 فلیٹوںکو اپنا مسکن بنانے والوں کوان دنوں شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ مکینوں نے نسلہ ٹاور کے گرائے جانے کے حکم کو اینٹوں، سیمنٹ اور لوہے سے بنی عمارت سے زیادہ 44 خاندانوں کے نشیمن کو گرائے جانے کا حکم قرار دیا۔ مکینوںکا کہنا تھا کہ نسلہ ٹاورگرائے جانے کا حکم بدعنوان سرکاری اداروں، ان کے افسران و ملازمین اور بلڈر کے بجائے تمام قانونی تقاضوںکو پورا کر کے اپنے لیے گھر خریدنے والے شہریو ں کو سزا دینے کے مترادف ہے ۔ نسلہ ٹاور کے رہائشی پروفیسر امتیاز احمد نے کہا کہ اس گھر کو بنانے میں ان کی عمر بھر کی جمع پونجی لگ گئی‘ انہوں نے تمام قانونی تقاضوں کو پورا کر کے اپنا آشیانہ خریدا تھا، ان کے پاس زمین اور تعمیرات سے متعلق تمام سرکاری اداروں سے منظور شدہ کاغذات اور این اوسیز موجود ہیں۔ نسلہ ٹاور کے ایک اور رہائشی ولی موریا نے بتایا کہ کسی بھی عمارت کی تعمیر اور اس کی خرید و فروخت کی اجازت سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے دی جاتی ہے ‘ عدالت کے مطابق یہ سب کچھ رشوت کے عوض غیر قانونی طور پرکیا گیا تو اس کی سزا عمارت کے مکینوں کے بجائے رشوت خور سرکاری افسران کو دی جانی چاہیے لیکن متعلقہ سرکاری اداروں کے سربراہوں اور افسران کی عدالت میں موجودگی کے باوجود ان کو کسی قسم کی سزا نہیں سنائی گی۔ متاثرین نے چیف جسٹس آف پاکستان، صدر مملکت، وزیر اعظم پاکستان،گورنر سندھ اور وزیر اعلیٰ سندھ سمیت تمام منتخب اراکین اسمبلی، میڈیا، انسانی حقوق پر یقین رکھنے والی تمام تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں ان کی آواز بنیں اور ان کی بلاوجہ بربادی کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ نسلہ ٹاور الاٹیز ایکشن کمیٹی کراچی کے رکن عبدالقادر عمارت گرائے جانے کے ذکر پر آبدیدہ ہوگئے تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہم نے زندگی بھر کی خون پسینے کی حلا ل کمائی سے فلیٹس خریدے ہیں‘ عدالت عظمیٰ کی نظر میں اگر اس کی تعمیرات میں کوئی بے قاعدگی ہے تو جرم کرنے والوں کے بجائے ہمیں بے گھرکرنے کا حکم نہ صرف بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہے بلکہ یہ شفاف انصاف پر بھی سوالیہ نشان ہے‘ وہ کسی صورت میں فلیٹ نہیں چھوڑیں گے‘ اگر جبری طور پر نکالنے کی کوشش کی گئی تو وہ جان دے دیں گے اور ان کی لاشیں ہی فلیٹ سے اٹھائی جائیں گی۔