کراچی میں تجاوزات اور سپریم کورٹ – اے اے سید

302

کراچی پاکستان کا معاشی مرکز ہے، اور اس شہر کو معاشی، سیاسی، سماجی سمیت کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ جہاں اس شہر کے اہم مسائل کی بنیاد اس کا بے ہنگم پھیلائو، اور منصوبہ بندی اور انفرااسٹرکچر کا فقدان ہے، وہیں دوسری طرف ریاست اور اس کے اداروں کی سرپرستی میں قائم تجاوزات بھی اہم مسئلہ ہیں، جس پر کئی سال سے سپریم کورٹ میں وقتاً فوقتاً سماعت ہوتی رہی ہے۔ کیوں کہ کراچی میں جو بھی ناجائز کام ہورہا ہے وہ سندھ حکومت اور بلدیاتی اداروں سمیت دیگر محکموں کی ملی بھگت سے ہورہا ہے، اس لیے گزشتہ دنوں کراچی کے مسائل سے متعلق مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ سندھ میں حکومت ہے ہی نہیں، سندھ حکومت کے پاس ایک ہی منصوبہ ہے کہ بد سے بدتر بناؤ۔ سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کے وکیل کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ پورے ملک میں ترقی ہورہی ہے سوائے سندھ کے، تھرپارکر میں آج بھی لوگ پانی کی بوند کے لیے ترس رہے ہیں، ایک آر او پلانٹ نہیں لگا، پندرہ سو ملین روپے خرچ ہوگئے، حکومت کے پاس کیا منصوبہ ہے؟ صورتِ حال بدترین ہورہی ہے، بدقسمتی ہے ہماری، کوئی لندن سے حکمرانی کرتا ہے، کوئی دبئی سے، کوئی کینیڈا سے۔ ایسا کسی اور صوبے میں نہیں ہے، سندھ حکومت کا خاصا ہی یہ ہے، یہاں ایک اے ایس آئی بھی اتنا طاقتور ہوجاتا ہے کہ پورا سسٹم چلا سکتا ہے، مسٹر ایڈووکیٹ جنرل! اپنی حکومت سے پوچھ کر بتائیں کیا چاہتے ہیں آپ؟ جائیں اندرون سندھ میں خود دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ سب نظر آجائے گا، اتنے سالوں سے آپ کی حکومت ہے یہاں، کیا ملا شہریوں کو؟عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران یونس میمن نام کے شخص کا تذکرہ ہوا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کراچی کو یونس میمن کینیڈا سے آپریٹ کررہا ہے، یونس میمن ساری بلڈنگ وہاں بیٹھ کر دیکھ رہا ہے۔ ایک موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جیکب آباد جیسا حال پورے سندھ کا ہے۔ اسکول کی جگہ پر ہوٹل چل رہے ہیں۔ پڑھنے کی جگہ پر گدھے گھوڑے بندھے ہوئے ہیں۔ پانی کی ایک بوند نہیں ملتی لوگوں کو۔ اسی طرح کورٹ نے کراچی میں جگہوں سے متعلق فیصلے واضح طور پر دیے۔ شارع فیصل پر ٹاور کی تعمیر سے متعلق کہا کہ شارع فیصل کے اطراف سروس روڈ انکروچمنٹ کیا گیا، کمشنر بھی کہہ رہے ہیں قبضہ ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ حکام پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عدالت نے قرار دیا کہ نیول برج، دہلی کالونی سے لے کر سب تعمیرات غیر قانونی ہیں، کنٹونمنٹ مقاصد کے لیے زمین نہیں چاہیے تو واپس کریں۔ چیف جسٹس نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی طرزِ حکومت کا کچھ مطلب ہوتا ہے، پارلیمانی حکومت مضبوط حکومت ہوتی ہے،جب آپ نالہ صاف نہیں کراسکتے تو صوبہ کیسے چلائیں گے؟ گزشتہ سال پہلے نالہ صاف کرنے کا حکم دیا، روزانہ نئے نئے بہانے کرتے ہیں۔

یہ سپریم کورٹ میں مختلف معاملات پر درخواستوں سے متعلق طویل سماعت تھی جو اس شہر کی حالتِ زار اور اس کے ساتھ ہونے والے ظلم کی ایک بڑی روداد بن گئی۔ اس میں کئی حوالوں سے متعلق حقائق سامنے آئے، جو اس شہر میں رہنے والوں کو تو معلوم ہیں لیکن اب عدالت نے یہاں کی حکومت اور انتظامیہ کے جرائم کی تفصیلات خود بیان کرکے مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔

چیف جسٹس نے بتادیا ہے کہ یہ شہر ملبے کا ڈھیر کیسے بنا؟ اس کا انفرااسٹرکچر کیوں تباہ ہے؟ یہاں کے وہ ادارے جنہیں شہر کو بنانا تھا وہ کس طرح ماضی کے عروس البلاد کو کھا رہے ہیں؟ عدالت عظمیٰ میں صوبے بھر کی زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے سے متعلق جب معاملہ آیا تو سینئر رکن بورڈ آف ریونیو قاضی شاہد پرویز عدالت میں پیش ہوئے اور رپورٹ عدالت میں جمع کروائی۔ ان کی پیش کردہ رپورٹ میں لکھا گیا کہ صوبے بھر کے اندر 7 کروڑ دستاویزات کو کمپیوٹرائزڈ کردیا گیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا بات کررہے ہیں! آج بھی ہائی کورٹ میں جعلی دستاویزات کے کیس دائر ہورہے ہیں۔ اس پر رکن نے کہا کہ جعلی دستاویزات بڑی حد تک بننا ختم ہوچکی ہیں، سیکورٹی پرنٹنگ پریس سے دستاویزات بنوائی جارہی ہیں، ہر کاغذ پر پرنٹنگ آئی ڈی موجود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 1985ء سے اب تک 2 لاکھ 40 ہزار سے زائد بوگس انٹریز کی نشاندہی کی گئی۔ تاہم اس موقع پر انہوں نے سرکاری زمینوں پر تجاوزات ہونے کا اعتراف کیا اور بتایا کہ انسدادِ تجاوزات فورس روزانہ کارروائی کررہی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپرہائی وے پر جاکر دیکھیں 10، 10 منزلہ عمارتیں بنی ہوئی ہیں، سرکاری زمینوں پر تجاوزات بھری پڑی ہیں، پورے پورے شہر آباد ہوچکے ہیں، یونیورسٹی سے آگے جائیں غیر قانونی تعمیرات ہی تعمیرات ہیں۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ نوری آباد سے آگے تک قبضے ہوچکے ہیں، ملیر میں جاکر دیکھیں تجاوزات ہی تجاوزات ہیں، سرکاری زمین پر کثیرالمنزلہ عمارتیں بن گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز بھی ریلوے کا کیس جب چلا تو پتا چلا کہ سرکاری زمین پر عمارت بن چکی ہے۔

یہ بات چیف جسٹس بھی اپنی معلومات کے مطابق کہہ رہے ہیں، اور حقیقت میں بھی یہی حال ہے آج کی تاریخ میں بھی کہ جب سپریم کورٹ کراچی میں تجاوزات کے پس منظر میں مختلف کیسز میں فیصلے سنارہی ہے تو دوسری طرف کراچی میں پورشن مافیا سرگرم ہے اور غیر قانونی تعمیرات بھی جاری ہیں۔ شہر کے درمیان کے علاقے لیاقت آباد ہو،گلستانِ جوہر ہو یا گلشن اقبال… اور اس سے آگے اسکیم 33 کی سوسائٹیاںجن میں اسٹیٹ بینک سوسائٹی،کوئٹہ ٹائون سوسائٹی، مدراس سوسائٹی، گوالیار سوسائٹی، ملک سوسائٹی سمیت درجنوں سوسائٹیز شامل ہیں… سب میں مافیا کا دھندا کم یا زیادہ جاری ہے۔ کئی مقامات پر لوگ ان مافیاز کے خلاف احتجاج بھی کررہے ہیں۔ کراچی مافیائوں کے شکنجے میں بری طرح جکڑا ہوا ہے۔ ان سب کا آپس میں متعلقہ حکومتی اہلکاروں کے ساتھ ایسا گٹھ جوڑ ہے کہ عدلیہ کو بھی گھماتے رہتے ہیں اور اس کے سامنے غلط تصویر پیش کرتے ہیں۔ اس پس منظر میں یہ بھی لکھتا چلوں کہ میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کی سماعت میں خود موجود ہوتا تھا جب کراچی بدامنی کیس کی سابق چیف جسٹس افتخار چودھری سماعت کیا کرتے تھے، اُس وقت بھی ان اداروں کی طرف سے ایسی ہی رپورٹ پیش کی گئی تھی۔ تب سے آج تک ہنوز دلی دور است والا معاملہ ہے۔

سماعت کے دوران ایک اور دلچسپ صورت حال اُس وقت سامنے آئی جب ڈان کی خبر کے مطابق سپرہائی وے پر متروکہ املاک کی زمین کا معاملہ زیرغور آیا۔ اس موقع پر وکیل متروکہ املاک نے عدالت کو بتایا کہ دیہہ گجرو سپرہائی وے پر متروکہ املاک کی زمین پر قبضہ شروع ہوچکا ہے، سب کچھ سندھ حکومت کے اجازت نامے سے ہورہا ہے، ہم خالی کرانے جاتے ہیں تو ہم پر مقدمات ہورہے ہیں، ابھی بھی ایک بلڈر نے ہماری 3 ایکڑ زمین پر چار دیواری بنالی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم کیا کریں، کیا ڈنڈا چلائیں؟ جو آپ کے اختیارات ہیں کیا وہ استعمال کریں؟ کیا یہ لوگ آپ سے زیادہ طاقت ور ہیں؟

اس پر وکیل نے کہا کہ ابھی جس تین ایکڑ پر قبضہ ہوا ہے، ایس ایچ او اور پولیس کی نگرانی میں اس پر چار دیواری تعمیر کرائی گئی ہے، آپ بورڈ آف ریونیو سے ریکارڈ منگوا لیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بورڈ آف ریونیو والے ایسا ایسا ریکارڈ لے آئیں گے کہ آپ حیران رہ جائیں گے۔ اس پر وکیل نے کہا کہ ہمیں پولیس اور سینئر رکن بورڈ آف ریونیو کی معاونت فراہم کرنے کی ہدایت کریں۔ اسی طرح شاہراہ قائدین کے معاملے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ شاہراہ قائدین پر سارے ڈینٹر، پینٹر بٹھا دیے، شورومز کھول دیے، گھروں پر سب بنادیا، سندھی مسلم سوسائٹی میں اونچی اونچی غیر قانونی عمارتیں بنادیں۔

اس پر کمشنر نے کہا کہ ایک 4 منزلہ عمارت نالے پر تعمیر ہوئی ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ آپ لوگ کر کیا رہے ہیں؟ قانون کے مطابق کارروائی کریں، آپ کے لوگ ملے ہوتے ہیں، پیسے کھاتے ہیں، ورنہ ایسے ہی نہیں بن جاتیں عمارتیں۔

واضح رہے کراچی کے اداروں سے متعلق یہ ریمارکس ہمارے نہیں بلکہ عدالتِ عظمیٰ کے ہیں، جو اس بیانیہ کی تصدیق کرتے ہیں کہ کراچی کو ”اپنوں“ اور ”غیروں“ سب نے مل کر لوٹا ہے اور لوٹ رہے ہیں۔

عدالت میں سماعت کے دوران کڈنی ہل پارک، رائل پارک ریزیڈنسی، ڈی ایچ اے، کلفٹن کے رہائشیوں کو پانی کی عدم فراہمی، کے پی ٹی کی زمین، پی اینڈ ٹی کالونی میں غیر قانونی تعمیرات کے معاملات بھی سامنے آئے۔ ان کے حوالے سے اپنے الگ الگ حکم کے علاوہ عدالت نے صوبے بھر کی سرکاری زمینوں پر قبضہ ختم کرانے کی ہدایت کی ہے، ساتھ ہی صوبے بھر کی گرین بیلٹس بحال کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔اس کے علاوہ عدالت ِعظمیٰ نے کھیل کے میدانوں اور پارکوں سے تجاوزات کے خاتمے کی بھی ہدایت کی ہے۔سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ صوبے بھر میں محکمہ جنگلات کی زمینوں سے قبضہ ختم کرایا جائے اور ان پر دوبارہ درخت لگائے جائیں، اس کے علاوہ محکمہ آبپاشی کی زمینوں سے بھی قبضہ ختم کرایا جائے۔

اس قت عدالت کے حکم پر اگلے روز سے ہی شہر کے مختلف علاقوں میں متعلقہ ادارے تجاوزات کے خاتمے کی کارروائی شروع کرچکے ہیں جو انہیں پہلے کرنی چاہیے تھی۔ یہ کتنی مؤثر ہوگی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، کیونکہ اس سے پہلے بھی عدالت ہی کے حکم پر شارع فیصل پر ایک پیٹرول پمپ سیل کیا گیا تھا، لیکن آج وہ کھلا ہوا ہے۔ دوسری طرف شہر کراچی میں رہنے والوں کے لیے ایک اور بات توجہ طلب ہے کہ جعلی اور ناجائز تعمیرات والے مکانات اور فلیٹ سستے ملتے ہیں، کیونکہ وہ غیر قانونی ہوتے ہیں، اس لیے ان کو یہ بھی بات سمجھنی چاہیے۔ چیف جسٹس نے بھی اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ غیر قانونی تعمیرات کرنے والے بڑے مافیاز ہیں، ان کے 90 فیصد لوگ شہر چھوڑ کر جاچکے ہیں، اب کس کو پکڑیں گے؟ یعنی لوگوں کو ہوشیار ہونا چاہیے۔ وہ بلڈرز جو پورشن بناکر، یا قبضے کی جگہ ناجائز فروخت کررہے ہیں وہ تو بھاگ جائیں گے، لیکن بعد میں عدالت کے ایک حکم پر وہ مافیا جو مختلف اداروں کے نام پر اس شہر میں گھنائونے دھندے میں ملوث ہے وہی ان کے مکان بھی گرائے گی اور ان کے سر سے چھت بھی چھینے گی۔ یہی معاملہ گجر نالہ اور اورنگی ٹائون نالےکے اردگرد کا بھی ہے جہاں لوگ اپنی جمع پونجی لگا چکے ہیں، مافیا بھاگ چکی ہے اور اب ان کے گھر گرائے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں ناصر حسین شاہ کی طرف سے یہ بات سامنے آئی ہے جس کا عدالت میں بھی ذکر ہوا کہ متاثرین کو 2 سال تک 20 ہزار روپے کرائے کے طور پر دیے جائیں گے جب تک نیا پاکستان اسکیم میں ان کے لیے گھر تعمیر نہیں ہوجاتے۔ اس حوالے سے صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ جب تک ان کو متبادل جگہیں فراہم نہ ہوجائیں اِن جگہوں کو مسمار کرنا لوگوں کو سخت تکلیف دینا ہے، کیونکہ سپریم کورٹ کے ریمارکس کی روشنی میں سندھ حکومت پر کس طرح اس انسانی معاملے کو چھوڑا جاسکتا ہے! دوسری اہم بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کو ان جرائم میں ملوث لوگوں کے خلاف بھی حکم صادر کرنا چاہیے، اور کراچی کے اس بگاڑ کا سبب بننے والے جو لوگ زندہ ہیں ان کو سزا ملنی چاہیے، اور جو مرگئے ہیں ان کے بھی نام سامنے آنے چاہئیں۔ یہی انصاف کا تقاضا ہے اور عدالتِ عظمیٰ انصاف دینے والا ادارہ ہے۔

(This article was first published in Friday Special)