کراچی (رپورٹ: محمد علی فاروق) بھارت سے مذاکرات کے ذریعے جموں و کشمیر کی سابقہ حیثیت بحال کرائی جاسکتی ہے ‘ مستقبل قریب میں بھارت تجارت، سرکریک جیسے امور پر مذاکرات کرسکتا ہے‘کشمیر پر سست ہوگا‘ وزیراعظم مودی کو مقبوضہ وادی میں ہندوئوں کی آبادکاری کوفوری طور پر روکنا، انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کو بند اور کشمیریوں کو بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔ ان خیا لات کا اظہار پاکستان کی 26 ویں سابق وزیر خارجہ محترمہ حنا ربانی کھر، سابق سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی، سابق نائب چیف آف ائر اسٹاف، ائر مارشل (ریٹائرڈ) فرحت حسین خان، جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ہیپی مون جیکب اور سینٹر برائے ایرو اسپیس اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز کی سینئر ریسرچ فیلو ستارہ نورنے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا بھارت آرٹیکل 370 واپس لے لے گا؟‘‘۔ حنا ربانی کھر نے اس بات پر زور دیا کہ کنٹرول لائن سے آگے بڑ ھنے اور باہمی معاملات کو آگے بڑھانے کے لیے بھارت کو5 اگست 2019ء کے فیصلے کو واپس لینا ہوگاجس کے تحت مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت کو ختم کردیا گیا ہے‘ اس کے بغیر کوئی پیش رفت ممکن نہیں کیونکہ پاکستان کے عوام کبھی بھی بھارت کے اقدام کی تائید نہیں کریںگے اور نہ ہی یہ پاکستان کے مفاد میں ہو گا‘ سفارت کاری کے ذریعے ہی ملکی مفادات حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلا کے بارے میں کہا کہ پاکستان کو خدشہ لاحق ہے کہ بھارت افغان سرزمین کو اس کے خلاف استعمال کر سکتا ہے پاکستاناس حوالے سے دستاویزات ناصرف بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ بلکہ بھارت کے ساتھ بھی شیئر کرچکا ہے۔ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ جنگ بندی کے تسلسل اور نتیجہ خیز مذاکرات کاانحصاردونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت کے سیاسی عزم پر ہے‘ وزیر اعظم مودی کو تنازع کشمیر اور پاکستان کے مطالبات کا جائزہ لینا ہو گا جس میں جنگ بندی کا باقاعدہ آغاز، مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن کو ختم کرکے کشمیریوں کو بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی، سیاسی قیدیوں کی رہائی اور امن مذاکرات میں کشمیری قیادت کی شمولیت جیسے اقدامات شامل ہیں۔ فرحت حسین خان نے کہا کہ آرٹیکل 370 اور 35 -اے کو منسوخ کرنے سے جموں و کشمیر کے عوام کو شدید خدشات لاحق ہوگئے ہیں‘ بھارت اگر امن میں شراکت دار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کو اخلاص کا مظاہرہ کرنا ہوگا اوراس سلسلے میں پہلے قدم کے طور پرکشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکنے اور کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق دینے کی ضرورت ہے‘مودی کو مقبوضہ کشمیر میں ڈیموگرافی کی تبدیلی کے لیے ہندوئوں کی آبادکاری کو روکنا ہوگا‘ اوراس متنازع علاقے کی حیثیت کو 5 اگست 2019ء سے پہلے کی طرف موڑنا ہوگا، اس کے بعد جامع مذاکراتی عمل کو دوبارہ شروع کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر ہیپی مون جیکب نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ بندی کا موجودہ معاہدہ گزشتہ 18 سال میں ایک اہم پیش رفت ہے‘ اس سلسلے میں غیر رسمی بیک چینل مذاکرات نے کلیدی کردار ادا کیا ہے‘ اس لیے اس کی تعریف کی جانی چاہیے‘ مستقبل قریب میں بھارت پاکستان کے ساتھ تجارت اور دیگر امور جیسے کہ سر کریک پر بات چیت کرنے کو تیار ہوسکتا ہے تاہم کشمیر کے بارے میں بھارتی فریق سست پڑ سکتا ہے۔ آرٹیکل 370 کا ریاست جموں و کشمیر میں واپس آنے کا امکان نہیں ہے تاہم آج ایک حقیقی امکان موجود ہے کہ مذاکرات کے عمل کے طور پر جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کو بحال کردیا جائے گا۔ سینٹر برائے ایرو اسپیس اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز کی سینئر ریسرچ فیلو ستارہ نور نے کہا کہ امن کی کسی بھی کوشش کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے لیکن اس امن کی خواہش کا اظہار باہمی اور متفقہ طور پر ہونا چاہیے۔