حکومتی دعویٰ مگر غریب پریشان کیوں؟

270

ہمارے وزیراعظم عمران خان نے بہت ساری خوشخبریاں سنائی ہیں۔ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ سب ٹھیک ہے، ملک ترقی کی جانب چل پڑا ہے، مگر ابن آدم کو ترقی نظر کیوں نہیں آتی، عوام کے مسائل تو کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں، حکومتی اداروں میں کرپشن اپنے عروج پر ہے، نااہل لوگوں کی نامعقول ٹیم آج بھی وزیراعظم صاحب آپ کے گلے کا ہار بنی ہوئی ہے، مہنگائی عروج پر ہے، پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کوئی کمی نظر نہیں آرہی ہے، لوڈشیڈنگ عوام کو اذیت دینے کے لیے کافی ہے۔ اس گرم موسم میں جب عوام کو بجلی کی ضرورت پڑ رہی ہے مگر دن ہو یا رات کراچی میں تو کے الیکٹرک نے اپنی الگ ریاست قائم کر رکھی ہے۔ جماعت اسلامی نے کے الیکٹرک کے خلاف عدالت میں مقدمہ کیا مگر ان کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ سندھ حکومت تو وفاق کو ناکام کرنے میں لگی ہوئی ہے، ریکوڈک بلوچستان میں ایک بڑا قومی خزانہ ہے جس کو ماضی کی حکومت نے فروخت کرنے کا معاہدہ کرلیا تھا اور مال بھی پکڑ لیا تھا، پاکستان نے کیس جیت لیا اور ایک بھاری جرمانے کی رقم جو 16 ارب 97 کروڑ ڈالرز تھی ان کو بچالیا۔ پاکستانی برآمدات ملک کی تاریخ کی بلند سطح پر پہنچ گئی تو نظر بھی آنی چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ اسٹاک مارکیٹ نے 73 سالہ ریکارڈ توڑ دیا مگر عوام کو کیا فائدہ۔ پاکستان کو دنیا کی ماحولیاتی فورم کی صدارت مل گئی تو اب اس پر بھرپور انداز میں کام بھی ہوتا نظر آئے۔ PIA کے منجمد اثاثے 10 سال بعد بحال ہوئے مگر اس سے عوام کی بھوک اور روزگار کا مسئلہ تو حل نہیں ہوسکا۔ پاکستان نے 22 ارب کا قرض واپس کیا، حکومت مبارک باد کی مستحق ہے۔ پاکستان ترقی کے لحاظ سے دنیا میں 127 سے 63 نمبر پر تو آگیا مگر ترقی نظر کیوں نہیں آتی۔ بقول وزیراعظم ہر ضلع میں 10 سے 15 ارب روپے کے ترقیاتی پیکیجز تو جاری ہوگئے مگر اُن کی نگرانی کون کرے گا۔ آدھا کھالیا جائے 20 فی صد کمیشن میں نکل جائے گا تو کام کس طرح سے ہوگا۔ احساس کفالت اچھا پروگرام ہے بس ضرورت ایماندار افسران کی ہے۔ صحت کارڈ ابھی ایک عوامی خواب ہے نجانے یہ خواب کب پورا ہوگا۔ کراچی والے تو صحت کارڈ کے انتظار میں لگے ہوئے ہیں۔ میرا تو صدر اور وزیراعظم سے مطالبہ ہے کہ صحت کارڈ سب سے پہلے بیوائوں کو جاری کیا جائے، احساس کفالت پروگرام میں سب سے پہلے بیوائوں یتیموں کی مدد کی جائے مگر میں جو دیکھ رہا ہوں وہ اس کے برعکس ہے، کراچی کے اردو بولنے والوں کو ہر جگہ نظر انداز کیوں کیا جارہا ہے۔ کراچی کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کا کیا قصور ہے۔ ابن آدم یہ سوال ریاست کے حکمرانوں سے کررہا ہے۔ پانی، بجلی، گیس کا فقدان کراچی والوں کے لیے کیوں ہے، ترقیاتی کاموں کا فنڈز کون کھا رہا ہے، کراچی و حیدر آباد کا بُرا حال ہے۔ بس کراچی کو سونے کی چڑیا سمجھ لیا ہے، سب نے ہر سیاسی جماعت نے کراچی والوں کو نقصان پہنچایا ہے۔