کراچی(اسٹاف رپورٹر) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ کراچی کے خلاف بہت بڑی سازش ہوئی، شہر کو تباہ کردیا گیا۔ بدھ کو عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے تجاوزات اورغیر قانونی تعمیرات سے متعلق مختلف کیسز کی سماعت کی ۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے تمام سرکاری زمینیں واگزارکرانے اور پرتعیش اپارٹمنٹس والے کثیر المنزلہ نسلہ ٹاور کو فوری گرانے کا حکم دے دیا۔ عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہ ابتدا ہے، سب کچھ ٹوٹے گا، امتیاز اسٹور اور دیگر عمارتیں بنا کر تباہی مچا دی گئی۔عدالت نے 3 ماہ کے اندر زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرانے کی ہدایت کر دی۔ چیف جسٹس نے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مزید وقت ہرگز نہیں دیا جائے گا، اگر عدالتی فیصلے پر عمل نہ ہوا تو آپ ذمے دار ہوں گے، یہ سب آپ لوگوں ہی نے تجاوزات کرائی ہیں، ایک ایک ذمے دار بندے کو پکڑیں گے، غیرقانونی لیزدینے والوں کے خلاف مقدمات درج ہوں گے، بورڈ آف ریونیو کرپٹ ترین ادارہ ہے، زمینوں پر قبضے ممبر بورڈ آف ریونیو کی وجہ سے ہو رہے ہیں، آدھا کراچی سروے نمبر پر چل رہا ہے،یونیورسٹی روڈ پر جائیں اور دیکھ لیں کتنی عمارتیں بنی ہیں، نمائشی اقدام کے لیے دیوار گراتے ہیں پھر اگلے دن تعمیر ہو جاتی ہے،ہزاروں زمینوں کے تنازعات پیدا ہو رہے ہیں، کسی کی زمین کسی کو الاٹ کر دیتے ہیں آپ لوگ، زمینوں پر قبضے بھی اسی وجہ سے ہو رہے ہیں، کراچی میں ناکلاس کے نام پر اربوں روپے بنائے جا رہے ہیں،کراچی کا سروے کب ہوگا؟پورے کراچی اور سندھ کا بیڑہ غرق کیا ہوا ہے، ہمیں گورکھ دھندا نہیں چاہیے، سروے کے مطابق ٹھیک رکارڈ چاہیے، آپ لوگوں نے دھندا بنایا ہوا ہے، ریونیو نے سارا کام خراب کیا ہے اور صرف مال بنارہے ہیں،کراچی کا تو ماسٹر پلان ہی نہیں، کسی کے پاس ہے تو اپنا بناکر رکھا ہواہے، ساری رپورٹس دیکھی ہیں ہم نے، دکھاوے کی کارروائی کرکے پھر عمارتیں بنا دیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملیر میں جاکر دیکھیں اونچی اونچی عمارتیں بنا دی ہیں، کورنگی برج کے سامنے دیکھیں سب غیر قانونی عمارتیں بن گئیں، کے ڈی اے کے پاس کوئی ماسٹر پلان نہیں ہے، یونیورسٹی روڈ پر 15پندرہ منزلہ عمارتیں بنی ہوئی ہیں، سپرہائی وے پر ایکڑ کے حساب سے دیواریں کون ختم کرائے گا، زمینوں کا ریکارڈ کمپوٹرائزڈ نہیں ہوا تو سینئر رکن بورڈ ریونیو اور متعلقہ افسران کیخلاف کارروائی ہوگی۔ عدالتی برہمی پر سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو نے کہا کہ ہم نے احکامات پر عملدرآمد کیا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم دیکھیں گے کیا عملدرآمد کیا ہے، ورنہ سب سے پہلے آپ جائیں گے، آپ کنگ بنے ہوئے ہیں، آپ کے مختیار کار وزیر بنے ہوئے ہیں، بادشاہوں کی طرح زمینیں الاٹ کررہے ہیں۔ عدالت نے کراچی میں تمام سرکاری زمین سے تجاوزات ختم کرانے کا حکم دیتے ہوئے سینئر رکن بورڈ آف ریونیو سے 3ماہ میں رپورٹ طلب کرلی۔ علاوہ ازیں گجر نالہ کیس کی سماعت میں ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی لئیق احمد عدالت میں پیش ہوئے۔ ایڈمنسٹریٹر نے عدالت کو بتایا کہ عمارتیں گرانے میں مشکلات ہوتی ہیں اور فنڈز کا مسئلہ ہوتا ہے ،بہت خرچہ ہوگیا ہے۔ایڈمنسٹریٹر کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو یہاں لیز دینے میں ملوث ہیں ان کے خلاف ایف آئی آرز درج کرائیں گے اور یہ پہلا اقدام ہوگا، آپ کی مشینری گل سڑ رہی ہے، ٹرک کھڑے ہوئے ہیں ملازمین نے ان کے پرزے نکال لیے ہیں، کے ایم سی کو کھوکھلا کردیا گیا ہے، پہلے کے ایم سی اپنا فنڈ خود پیدا کرتی تھی، کے ایم سی کے 80 فیصد عملے کو فارغ کریں، کے ایم سی کا کوئی ملازم کام کرتا نظر نہیں آتا، یہ لوگ سارا دن دفاتر میں بیٹھے رہتے ہیں، کے ایم سی کو اتنے اسٹاف کی ہرگز ضرورت نہیں، کے ڈی اے، کے ایم سی میں ہزار فیصد اوور اسٹاف بھر دیا گیا، ان اداروں کو تباہ کر دیا۔جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ کراچی میں آفت آتی ہے تو کوئی نظر نہیں آتا، پچھلے سال کی بارشوں میں ہم نے دیکھ لیا، پہلے ہم دیکھتے تھے رات 3بجے ساری کچی پکی سڑکیں دھل جاتی تھیں، بچوں کے اسکول جانے سے پہلے سارا کچرا اٹھا لیا جاتا تھا،اب سب جگاڑوں میں لگے ہوئے ہیں،آج نارتھ ناظم آباد کچی آبادی سے بھی بدتر ہے، ہر طرف مٹی نظر آتی ہے، گٹر بھرے ہوئے، سٹرکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ ،عدالت عظمیٰ نے کراچی کے تمام ایس ٹی پلاٹس کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے ایس ٹی پلاٹس پر قائم سائوتھ سٹی اسپتال اور ضیا الدین اسپتال کو شو کاز نوٹس جاری کردیے ۔