سندھ میں اکثریت میں کون؟

979

اگر دیبل کو مرکز مان لیا جائے تو ماضی میں دیبل پر ایک لشکر کشی اس کے مغرب یعنی عرب کی جانب سے ہوئی تھی جس کے نتیجے میں دیبل نہ صرف مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا تھا بلکہ کچھ ہی عرصے میں مسلمانوں نے جس طرز حکمرانی کا نمونہ پیش کیا تھا وہ اتنا اعلیٰ تھا کہ جب محمد بن قاسم کو سندھ سے واپس بلایا گیا تو سندھ کی فضا کا کچھ ایسا عالم تھا کہ
گھر سے جب نکلا تو ہر شے سے برستا تھا خلوص
آدمی تو آدمی روئے در و دیوار تک
گزشتہ چند دن قبل اسی دیبل کے قریب ٹھیک اس کی مخالف سمت سے ایک اور حملہ ہوا۔ پورے سندھ سے قافلے پہلے دیبل سے کوئی 100 کلو میٹر پہلے جمع ہوئے اور ٹھیک دیبل کے مقام پر بھی کچھ قافلے ٹھیرے اور پھر دونوں راستوں سے چل کر کراچی کے قریب بحریہ ٹاؤن پر حملہ آور ہوئے۔ ہر لشکر کشی کے پس ِ پردہ کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے۔ تقریباً 14 سو سال قبل لشکر کشی ایک مظلوم لڑکی کی صدا تھی جس نے مسلمان حکمرانوں پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کے ہوتے ایک بے بس کے ساتھ یہ ظلم ہو رہا ہے اور آپ لوگ خاموش ہیں جبکہ گزشتہ دنوں ہونے والے لشکر کشی کے پس ِ پشت، بقول سالارِ لشکر، دھرتی ماں کی دہائی تھی کہ چند قزاق اس پر قبضہ کر کے اس کی چھاتی پر مونگ دل رہے ہیں۔ اْس پکار پر جاگ جانے اور اِس پکار کو سن کر غفلت کی نیند کو مزید گہری کرنے والوں میں ایک واضح فرق یہ تھا کہ اْس وقت کے حکمرانوں نے مظلوم کی فریاد پر راست قدم اٹھاتے ہوئے لشکر تیار کیا اور غیرت کے نام پر ماردینے یا مرجانے کا فیصلہ کیا جبکہ سندھ کے موجودہ حکمران از خود دھرتی ماں کا سودا کرنے میں نہ صرف ملوث رہے بلکہ اس کو آزاد کرانے والوں کی اتنی تربیت بھی نہیں کی کہ وہ دھرتی ماں کے زخموں پر مرہم رکھیں اور اسے قابض ظالم مافیا سے نجات دلائیں جس کا نتیجہ یہ نکلا تو وہ دھر تی ماں کے سینے پر مونگ دلنے والوں پر حملہ آور ہونے اور اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ماں کا سودا کرنے والوں پر شمشیر محمد بن قاسم کی مانند ٹوٹ پڑنے کے بجائے ان انسانوں کی عزت و جان و مال پر آسمانی بجلی بن کر ٹوٹ پڑے جو اپنی زندگی کی ساری جمع پونجی اپنے سر چھپانے کے لیے صرف کر چکے تھے۔
لشکر کی زبان پر بہت سارے نعرے تھے۔ ان میں ایک نعرہ یہ بھی تھا کہ ہم سندھ دھرتی میں بسنے والی سندھ اکثریت کو اقلیت میں تبدیل نہیں ہونے دیں گے۔ ہر وہ ’’غیر‘‘ سندھی جو سندھ میں آباد ہے اسے سندھ سے جانا ہوگا۔ ان کے سالاروں نے نہایت صاف صاف الفاظ میں کہا کہ سندھ دھرتی پر افغانیوں، بہاریوں، بنگالیوں اور کسی بھی صوبے سے آئے ہوئے لوگوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ان کے سالاروں کی باتیں اس بات کی غماز تھیں کہ اصل مقصد اْس مقصد سے قطعاً مختلف تھا جس کے نعرے بلند کیے جا رہے تھے کیونکہ اگر مقصد سندھ دھرتی پر کیا گیا قبضہ چھڑانا اور ذمے داروں کو سزا دینا ہوتا تو واپسی قبضہ چھڑائے بغیر اور ذمے داروں کے محلات کے در ودیوار ہلائے بغیر نہیں ہوتی۔ اس سے بحث نہیں کہ کیا سندھ کے تمام شہروں سے جمع ہوکر کسی بستی پر حملہ کرنا، پاکستان کے خلاف نعرے بلند کرنا اور املاک کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دینا قانوناً اور اخلاقاً درست تھا یا غلط، یہاں اس بات کو جان لینا بہت زیادہ ضروری ہے کہ کیا موجودہ سندھ میں واقعی سندھیوں ہی کی اکثریت ہے؟۔
اگر باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو سندھ میں اپنے آپ کو سندھی کہنے والے سب سے چھوٹی اقلیت ہیں جبکہ دیگر اکائیاں ان سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ حد تو یہ ہے موجودہ حکمرانوں کا تعلق کسی طور سندھ سے ہے ہی نہیں اور کئی دھائیوں سے سندھ میں حکمرانی سندھیوں کی رہی ہی نہیں ہے۔ مراد علی کیا ہیں ’’شاہ‘‘۔ قائم علی کون تھے ’’شاہ‘‘۔ اس سے قبل مظفر علی کون تھے ’’شاہ‘‘۔ موجودہ وزرا میں اکثریت میں کون ہیں ’’شاہ‘‘۔ یہ شاہ، سید، صدیقی، قریشی، فاروقی، عثمانی، ہاشمی اور انصاری کون ہیں؟، سب کے سب نسلاً عرب ہیں اور ان سب سے سندھ ماشااللہ سے نہایت خود کفیل ہے۔ یہ مرزا، مغل، بیگ، راجپوت، قائم خانی، رائے، راؤ کہاں سے سندھی ہو گئے۔ مزاری، لغاری، مکرانی اور سالار اعظم سندھو دیش، ڈاکٹر قاردر مگسی کیا سندھی ہیں۔ کراچی کے بنگالی، بہاری، برمی، کاٹھیاواڑی، گجراتی، کچھی میمن اور کروڑوں اردو بولنے والے کیا سندھ سے باہر کے ہیں؟۔ کراچی، حیدر آباد، میر پور خاص، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو آدم، شہداد پور، سانگھڑ، نواب شاہ، سکھر اور جیکب آباد میں سندھی آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں یہاں تک کہ جس ’’بھٹو‘‘ کے نام پر پی پی الیکشن جیتی چلی آ رہی ہے اس فیملی کا تعلق تو سندھ سے کبھی رہا ہی نہیں۔ سر شاہ نواز بھٹو خود ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آباد ہوئے تھے۔ جلوس، جس کو اس بات کا گھمنڈ تھا کہ ’’ان‘‘ کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش کی جا رہی ہے، اسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ یعنی سندھی، صوبہ سندھ میں اکثریت ہیں۔
ممکن ہے کہ جو عرب، ترکی، منگولی، بلوچی اور پختون برس ہا برس سندھ میں رہنے کی وجہ سے اپنی اپنی زبانیں بھول کر اب سندھی بولنے لگے ہوں، ان کی نظر میں وہ سندھی سمجھے جاتے ہوں تو کراچی سے باہر سندھ کے جتنے بھی شہر ہیں وہاں کے سارے رہنے والے نہ صرف سندھی روانی سے بولتے ہیں بلکہ اہل سندھ سے کہیں زیادہ شستہ سندھی بولتے ہیں تو آخر ان سب کو سندھی مان لینے میں اہل سندھ کو کیا قباحت ہے۔ اگر سندھی ہونا سندھ میں رہنا ہے تو پھر جھگڑا کس بات کا ہے۔ یاد رکھیں تہذیبیں علاقہ و زبان سے نہیں اپنے رویوں سے پہچانی جاتی ہیں لہٰذا سندھی بولنے والی اقلیت کو یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ سندھ میں رہنے والے سب سندھی ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو سندھ کی اکثریتی اکائیاں ان ہی کو قبول کرنے سے انکار کی جانب چل نکلیں۔