کراچی(اسٹاف رپورٹر) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ کراچی کو کینیڈا سے چلایا جارہا ہے، سندھ کا اصل حکمران یونس میمن ہے جو کینیڈا سے سسٹم آپریٹ کرکے ساری بڈنگ دیکھ رہا ہے،سندھ میں حکومت ہے ہی نہیں، یہ ایک نالا صاف نہیں کراسکتے تو صوبہ کیسے چلائیں گے، سندھ کے سوا تمام صوبے ترقی کررہے ہیں۔کراچی میں تجاوزات سے متعلق مختلف کیسز کی سماعت پیر کو عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کی ۔دوران سماعت چیف جسٹس نے سرکاری مقامات پر غیر مجاز تعمیرات اور تجاوزات پر حکومت سندھ پر سختی برہمی کا اظہار کیا۔عدالت نے قبضے کی اراضی پر دی جانے والی تمام لیز جعلی قرار دیتے ہوئے متاثرین کی درخواستیں مسترد کردیں۔ عدالت نے اورنگی نالہ اور گجرنالہ آپریشن جاری رکھنے ، چائنا کٹنگ کے 36ہزار پلاٹس سمیت کڈنی ہل پارک، کے ڈی اے کلب، اسکواش کورٹ، الہ دین پویلین اینڈکلب اور شاپنگ سینٹر فوری گرانے کا حکم دے دیا۔عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی سرزنش کرتے ہوئے کہاکہ آپ سب جانتے ہیں بتائیں ہمیں، آپ کی حکومت کیسے کوئی اور چلا سکتا ہے؟ کسی کو تو کھڑا ہوکر اس کو روکنا ہوگا،ان حالات میں صوبہ کیسے گزارا کرے گا؟ سال پہلے نالہ صاف کرنے کا حکم دیا، روزانہ نئے نئے بہانے، جھوٹی رپورٹس پیش کردیتے ہیں اور سمجھتے ہیں عدالت کو نہیں پتا چلے گا، ہمیں سب پتا ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صوبے میں ایک تعلیم کا پروجیکٹ 2600 بلین روپے کا 2014 ء میں شروع ہوا 2017ء میں ختم ہوا، ان پیسوں سے دنیا کی بہترین جامعات بنائی جاسکتی تھی،یہ رقم کہاں گئی؟ سب کرپشن کی نذر ہوگئی،آر او پلانٹس کا پیسہ 1500 بلین روپے ہے، تھر کے لوگ آج بھی پانی کو ترستے ہیں، سندھ حکومت کے پاس ایک ہی منصوبہ ہے بد سے بدتر بناؤ، آپ لوگ فیصلہ کرلیں کرنا کیا ہے اس طرح حکومت نہیں چلتی ، سروے کے مطابق کراچی دنیا کے 10بد ترین شہروں میں شامل ہے، یہاںہو کیا رہا ہے ؟پتا نہیں کہاں سے لوگ چلتے ہوئے آتے ہیں جھنڈے لہراتے ہوئے شہر میں داخل ہوتے کسی کو نظر نہیں آتے،کم از کم پندرہ بیس تھانوں کی حدود سے گزر کر آئے ہوں گے کسی کو نظر نہیں آیا،ابھی وہاں رکے ہیں کل یہاں بھی آجائیں گے، ایڈووکیٹ جنرل کاکہناتھا کہ کل بجٹ کی تقریر ہے 2 دن کی مہلت دے دیں. عدالت کاکہنا تھا کہ بجٹ تو پچھلے سال بھی آیا تھا لوگوں کو کیا ملا؟صرف اعداد و شمار کا گورکھ دھندا کے ادھر اُدھر گھما دیتے ہیں آپ،اتنے سالوں سے آپ کی حکومت ہے یہاں کیا ملا شہریوں کو؟بجٹ تو ہر سال پیش کرتے ہیں بس مخصوص لوگوں کے لیے رقم مختص کردیتے ہیں، عوام کے لیے نہیں، لوگوں کو تو ایک پیسے کا فائدہ نہیں ہوتا، حکومت کے پاس کیا منصوبہ ہے؟ صورتحال بدترین ہورہی ہے،بدقسمتی ہے ہماری، کوئی لندن سے حکمرانی کرتا ہے، کوئی دبئی سے ،کوئی کینیڈا سے،ایسا کسی اور صوبے میں نہیں ہے، سندھ حکومت کا خاصا ہے یہ ہے،یہاں ایک اے ایس آئی بھی اتنا طاقتور ہوجاتا ہے جوپورا سسٹم چلا سکتا ہے،مسٹر ایڈووکیٹ جنرل اپنی حکومت سے پوچھ کر بتائیں کیا چاہتے ہیں آپ؟کسی نے کل کلپ بھیجا ہے بوڑھی عورت کو وہیل بیورو پر اسپتال لے جایا جارہا تھا،جائیں اندرون سندھ میں خود دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ سب نظر آجائے گا،ڈی ایچ اے فیز ون میں کمرشل سرگرمیوں کے خلاف درخواست پر عدالت عظمیٰ نے کنٹونمنٹ بورڈ حکام کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہاکہ تمام کنٹونمنٹس کا یہی حال ہے، پورے کراچی کو کمرشل کردیا گیا ہے،دہلی کالونی سے خلیق الزماں روڈ پر تمام غیر قانونی عمارتیں بن گئیں، دس دس منزلہ غیر قانونی عمارتیں بن گئیں آپ کی آنکھیں بند تھیں؟ریس کورس پر گھر بنا دیے ہیں،جس مقصد کے لیے زمینیں دی گئیں تھی اگراس مقصدکے لیے استعمال نہیں کرنی تو واپس کردیں۔دوران سماعت کے ایم سی کے وکیل کاکہناتھا کہ این ڈی ایم اے کے تعاون سے نالوں کے اطراف تجاوزات ختم کررہے ہیں،درجنوں متاثرین نے اینٹی انکروچمنٹ ٹریبونل سے اسٹے لے لیا، ایڈووکیٹ جنرل کاکہناتھا کہ سندھ ہائی کورٹ نے بھی کئی کیسز میں حکم امتناع دیا ہے، کے ایم سی کے وکیل کاکہناتھا کہ لیز مکانات گرانے سے متعلق وضاحتی احکامات مل جائیں تو آسانی ہوگی، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایاکہ متاثرین کو2 سال کے لیے ماہانہ 20 ہزار دیے جائیں گے،نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم میں مکانات بھی دیے جائیں گے، یکم جولائی سے بارش شروع ہوجائے گی،ہم نے اسٹے کی وجہ سے کارروائی روک دی ہے، ایڈووکیٹ جنرل نے اعتراف کیا کہ مختلف محکموں نے لوگوں کو غیر قانونی لیز دے دی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی حکومت ذمے دار ہے،غیر قانونی لیز کیسے دے دی گئی ؟حکومت کیا کررہی تھی؟آپ کی ناک کے نیچے سب ہوتا رہا اور پتا نہیں چلا؟ متاثرین کے وکیل کاکہناتھا کہ لیز مکانات توڑ کر روڈ بنایا جارہا ہے،سندھ کچی آبادی، کے ایم سی اور دیگر اداروں نے لیز دی ہے،ایک مکانات میں 4خاندان ہیں تو ایک خاندان شمار کیا جارہا ہے،لیاری ایکسپریس وے کے متاثرین کو مناسب معاوضہ دیا گیا تھا۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ تجاوزات تو ہر حال میں ختم کرنا ہوگی، نالہ پر کیسے مکان بنادیے گئے؟ جسٹس اعجاز الحسن کاکہناتھا کہ معاوضہ دینے کا معاملہ الگ ہے مگر تجاوزارت کے خلاف کارروائی کیسے روک دیں؟متاثرین کے وکیل کاکہناتھا کہ ہمارے پاس تو لیز موجود ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ یہ تو چائنا کٹنگ ہے، نائنٹیز میں بھی اسی طرح جعلسازی ہورہی تھی،یہ ساری دستاویزات جعلی ہیں، ہمیں سب کی حقیقت معلوم ہے ،آپ معاوضہ کے لیے لیز دستاویزات میں دعویٰ کرسکتے ہیں،اس طرح غیرقانونی لیز کی بنیاد پر کارروائی نہیں رک سکتی، تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری رکھا جائے، عداکت نے متاثرین کی درخواست مسترد کردی۔ عدالت عظمیٰ میں 36 ہزار پلاٹوں کی چائنا کٹنگ کی پھر گونج سنائی دی ۔عدالت نے کمشنر کراچی کو سارے پلاٹس خالی کرانے اور گرانے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کمشنر صاحب 36 ہزار پلاٹوں پر قبضہ ہوا ہے،کمشنر صاحب اگر آپ انہیں نہیں گرائیں گے تو آپ خود گر جائیں گے، عدالت کے پاس سارا ریکارڈ موجود ہے، بغیر رکاوٹ کے کارروائی کریں ،واٹر بورڈ نے پارک کی زمین خالی کروائی تھی وہاں شوروم کھل گیا۔ ایم ڈی واٹر بورڈ کی سرزنش کرتے ہوئے عدالت کاکہناتھا کہ آپ نے پارک کیوں نہیں بنایا؟ ایم ڈی واٹر بورڈ کاکہناتھا کہ وہاں شوروم نہیں ہے۔چیف جسٹس کاکہناتھا کہ آپ ہمارے ساتھ کیوں مغز ماری کررہے ہیں ہمارے ہاتھ سے کچھ ہوجائے گا، میں نے خود وہاں گاڑیاں دیکھی ہیں،آپ بھی اس سسٹم کا حصہ ہیں سب معلوم ہے آپ کیا کررہے ہیں، اسٹیڈیم کے پاس ہائڈرنٹس پر گھر بنے ہوئے ہیں کیسے بنالیے لوگوں نے گھر؟ ایم ڈی کاکہناتھا کہ ملازمین کے لیے کوارٹرز بنے ہوئے ہیں ، عدالت نے ہدایت کی کہ کس نے اجازت دی پوری رپورٹ پیش کریں۔عدالت نے الہ دین پارک سے متصل پویلین اینڈ کلب غیر قانونی قرار دیتے ہوئے حکومت کو 2دن میں پویلین اینڈ کلب اور الہ دین پارک کا شاپنگ سینٹرگرانے کا حکم دے دیا ۔عدالت کاکہنا تھا کہ پولیس اور رینجرز کی مدد سے فوری کارروائی کریں، غیر قانونی طور پر زمین کو منتقل کرکے کمرشل کردیا گیا، عدالت نے راشد منہاس روڈ پر یو بی ایل کمپلیکس سے متصل زمین بھی خالی کرانے کا حکم دیتے ہوئے رفاعی پلاٹ سے متعلق رپورٹ طلب کرلی۔ عدالت کاکہناتھا کہ پارک کی زمین پر کمرشل سرگرمی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، گرین لائن بس سروس سے متعلق کیس میں عدالت نے ڈی جی ایف ڈبلیو او کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ہم نے سیکٹر کمانڈر کو نہیں بلایا تھا آپ جائیں پیچھے بیٹھ جائیں ۔ عدالت نے ڈی جی ایف ڈبلیو او کو 16جون کو پیش ہونے کا حکم دیا۔عدالت نے کڈنی ہل پارک میںتمام تجاوزات2دن میں ختم کرنے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ کوئی مزار نہیں ہوگا جھنڈا لگا کر قبضہ کرتے ہیں،یہ طریقہ ہے قبضے کا،مسجد کے سیکرٹری کاکہناتھا کہ الفتح مسجد ہے وہاں پر قانونی دستاویزات ہیں،عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ سرکاری زمین پر کیسے مسجد بن گئی؟ جسٹس قاضی امین کاکہناتھا کہ جب مسجد نبوی کے لیے زمین خریدی گئی تو آپ کیسے قبضہ کرسکتے ہیں؟ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ کمشنر صاحب ایسے کام مت کریں کہ آپ کو جیل جانا پڑے،آپ پر چارج فریم کریں گے اور یہاں سے جیل بھیج دیں گے ۔عدالت نے مسجد انتظامیہ پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔ کمشنر کراچی کا کہناتھا کہ ہم عدالتی حکم پر عمل کریں گے، عدالت نے حکم دیا کہ 2دن میں کارروائی کریں اور رپورٹ پیش کریں، کڈنی ہل کی پوری زمین 62 ایکڑ خالی چاہیے۔مزید برآں عدالت عظمیٰ نے کشمیر روڑ سے تمام تجاوزات کا خاتمہ کرنے کا فوری حکم دیا۔عدالت عظمیٰ نے کے ڈی اے کو حکم دیا کہ جتنی مشینیں چاہیں لے کر جائیں اور سب گرائیں، کے ڈی اے کلب، اسکواش کورٹ، سوئمنگ پول و دیگر تعمیرات بھی گرائیں۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ کسی زمانے میں کشمیر روڑ پر بچے کھیلتے تھے،میں خود کشمیر روڑ پر کھیلتا رہا، آج کشمیر روڑ پر قبضے ہوگئے۔عدالت نے کشمیر روڑ دوبارہ بچوں کے لیے کھولنے کا حکم دیا۔ عدالت نے رائیل پارک پر بھی پارک بنانے کا حکم دیا۔ فیصل صدیقی ایڈووکیٹ کاکہناتھا کہ پورا کے ڈی اے افسر کلب گرا دیا گیا، میری اطلاع کے مطابق کلب اب بھی چل رہا ہے،الہ دین پر بھی کوئی کلب بنا دیا گیا ہے،یہ کے ڈی اے کلب کیا ہوتے ہیں؟ہم نے بچپن میں ان سب میدانوں میں کھیلا ہے، کیا کشمیر روڑ پر سب ختم کردیا؟ کشمیر روڑ پر ملبہ کیوں چھوڑ دیا؟تجاوزات اب بھی ہیں تو بچے کیسے کھیلیں گے،کیا عدالت عظمیٰ خود جا کر تجاوزات کا خاتمہ کرے،کیا صرف اشرافیہ کے لیے سب سہولتیں ہیں۔عدالت نے کشمیر روڑ پر تمام کھیل کے میدان بحال کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت کاکہناتھا کہ اگر کوئی رکاوٹ ڈالے تو عدالتی حکم کی خلاف ورزی تصور ہوگا،عدالت نے سماعت بدھ تک کے لیے ملتوی کردی۔