سلامتی کونسل میں 5 طاقتوں کو ویٹو کا اختیار غنڈہ گردی اور مافیا کی قسم ہے

590

لاہور (رپورٹ حامد ریاض ڈوگر) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں 5 عالمی طاقتوں کو حاصل ویٹو کا اختیار جمہوری ہے نہ اس کا کوئی اخلاقی جواز ہے یہ سراسر تھانیداری، غنڈہ گردی اور مافیا کی ایک قسم ہے جس کا بڑا سبب باقی دنیا کی کمزوری ہے اگر دیگر تمام ممالک متحد ہو کر ویٹو کے اس قطعی غیر جمہوری اور غیر اخلاقی اختیار کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں اور اکثریت کی بنیاد پر فیصلوں پر اصرار کریں تو ان بین الاقوامی تھانے داروں سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز اہل علم و دانش، دینی، سیاسی اور صحافتی شخصیات جن میں حافظ محمد ادریس، سعید آسی اور کارٹونسٹ میکسم شامل ہیں، نے روزنامہ ’’جسارت‘‘ کے اس استفسار کے جواب میں کیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں 5 عالمی طاقتوں کے پاس موجود ویٹو کا اختیار کتنا جمہوری اور اخلاقی ہے؟ جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی رہنما ممتاز عالم دین حافظ محمد ادریس نے کہا کہ سلامتی کونسل کے 5ارکان کو حاصل ویٹو کا اختیار قطعی غیر جمہوری ہے جس کا کوئی اخلاقی جواز بھی موجود نہیں یہ اختیار طاقتور ایٹمی قوتوں نے باقی دنیا کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زبردستی حاصل کر رکھا ہے۔ دنیا کے کمزور ممالک ان بڑی طاقتوں کے زیر اثر ہونے کے سبب خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اگر یہ سب مل کر کہیں کہ ہم کسی کے ویٹو اختیار کو تسلیم نہیں کرتے،عالمی ادارے کے فیصلے اکثریت کی رائے کی بنیاد پر ہونے چاہیں اگر ایسا نہیں کرنا تو ہمیں اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کی کوئی ضرورت نہیں۔ ’روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے اداریہ نویس، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (دستور) کے سابق صدر ممتاز شاعر اور کالم نویس سعید آسی نے کہا کہ عالمی ادارے کی سلامتی کونسل میں بڑی طاقتوں کو حاصل ویٹو کا اختیار جمہوری ہے نہ اخلاقی بلکہ یہ ان ممالک نے ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کے اصول کے تحت جبراً حاصل کر رکھا ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ ایک ملک سراسر ناجائز موقف پر ڈٹ جاتا ہے اور باقی تمام ممالک کی رائے کو مسترد کر دیتا ہے اس اختیار نے ظالم اور مظلوم کے فرق کو ختم کر دیا ہے جس کی ایک بدترین مثال گزشتہ دنوں اس وقت دیکھنے میں آئی جب امریکا نے نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل کی اندھا دھند بمباری کی سرپرستی کرتے ہوئے سلامتی کونسل کے تمام ارکان کی متفقہ قرار دادوں کو ایک دو نہیں مسلسل 3 بار یکطرفہ طور پر ویٹو کر کے صریحاً غیر جمہوری اور غیر اخلاقی رویے کا مظاہرہ کیا اور ظالم اسرائیل کی نہایت ڈھٹائی سے سرپرستی کی۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے منشور پر نظر ثانی کی جائے، جو باقی دنیا کو تو انسانی حقوق کی پاسداری کا درس دیتا ہے اور اس مقصد کے لیے باقاعدہ انسانی حقوق کا ایک کمیشن بھی قائم کر رکھا ہے مگر دوسری جانب چند طاقتور ممالک کو ویٹو کا حق دے کر انسانی قتل عام کی کھلی چھٹی بھی دے دی گئی ہے اس متضاد طرز عمل کی وجہ سے اقوام متحدہ کا ادارہ عالمی سطح پر اپنی اہمیت کھو چکا ہے اور اگر اس کے منشور پر نظر ثانی کے ذریعے دوہرے معیارات کو ختم نہ کیا گیا تو اس کا حشر بھی ’’لیگ آف نیشنز‘‘ سے مختلف نہیں ہو گا۔معروف کارٹونسٹ پروفیسر ڈاکٹر شوکت محمود عرف میکسم نے کہا کہ جمہوریت میں اس طرح کے کسی اختیار کا تصور نہیں کیا جا سکتا یہ تو طاقت کے بل پر مسلط جرائم پیشہ گروہ، ڈان اور ایک طرح کا بین الاقوامی مافیا ہے‘ امریکا نے کسی معقول وجہ اور جواز کے بغیر کتنے ہی ممالک کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا مگر اسے پوچھنے والا کوئی نہیں‘ دنیا کے کمزور ممالک ’’قہردرویش، برجان درویش‘‘ کے مصداق امریکا اور دوسرے بڑے ممالک پر مشتمل اس ظالم مافیا کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہیں، اقوام متحدہ کے دہرے معیار آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں، انڈونیشیا کے ایک جزیرے کے لوگوں نے آزادی کا مطالبہ کیا تو چونکہ وہ عیسائی آبادی پر مشتمل تھا، اس لیے وہاں فوری طور پر ریفرنڈم کرا کر اسے انڈونیشیا سے الگ آزاد مملکت کی شکل دے دی گئی مگر کشمیر کے مسلمانوں کا مسئلہ 70برس سے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر حل طلب ہے ‘ بھارت کشمیری مسلمانوں پر ہر طرح کا ظلم و ستم روا رکھے ہوئے ہے اسی طرح اسرائیل مظلوم فلسطینی عوام کے علاقے پر زبردستی قابض ہے اور اقوام متحدہ کے منشور کی مسلسل خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطینی باشندوں پر جینا دوبھر کیے ہوئے ہے مگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اس کا بڑا سبب اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل پر چند ممالک کی اجارہ داری ہے جس سے نجات کے لیے چھوٹے ممالک کو متحد ہو کر اقدام کرنا ہو گا۔