حکومت اور اپوزشن عروج سے زوال کی جانب

260

وطن عزیز 2018 تک ترقی وخوشحالی کی جانب تیزی سے گامزن رہا ہے امیر امیر ترین ہوگیا اور غریب امیر تر ہوگیا۔ انصاف، علاج، تعلیم، روزگار قوم کو اس کی دہلیز پر مہیا کیے جاتے رہے ہیں، دودھ شہید کی نہریں ڈیموں کی شکل اختیار کر گئی تھیں کہ کاش ایسا ہوا ہوتا یہ ہم اُس دور کی بات کر رہے ہیں جس دور میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی برسر اقتدار رہی ہیں۔ آج ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو یہ درد ستا رہا ہے کہ ان کا دور حکومت آئیڈیل دور حکومت تھا۔ ایک اٹھاویں ترمیم کا جھنڈا اُٹھا کر صوبوں کو با اختیار بنانے کا راگ الاپ رہا ہے تو دوسرا ایک بٹن دبا کر پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا دعویٰ کر رہا ہے۔ پچھلے چالیس برسوں میں اس ملک کے ساتھ بے رحمی اور زیادتی کی گئی مگر کسی نے آواز حق بلند نہیں کی۔ چالیس برسوں سے یہ قوم ٹرک کی بتی کے پیچھے لگی ہوئی اپنے مسائل کے حل کی اُمید میں یہ قوم اچھے برے کی تمیز کھو چکی ہے یقینا موجودہ حکومت اس وقت ایک نااہل حکومت کے طور پر سامنے آئی ہے کیوں کہ اس قوم کو جو خواب دکھائے اُس کا جنازہ خود ہی اس حکومت نے بڑے د ھوم سے نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، مہنگائی نے اس قوم کی چیخیں نکالیں تو ماضی کے حکمران اپوزیشن کے روپ میں یکجا ہوکر قوم کو ایک بار پھر ذاتی وسیاسی مفاد میں استعمال کرنے کا منصوبہ بنانے لگی جس میں ان کو ناکامی ہوئی۔ اس قوم کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو لوگ چالیس برس میں تین تین بار برسر اقتدار رہ کر اس ملک و قوم کے مسائل کو حل نہیں کر سکے وہ اس قوم کے درد کو کیسے سمجھ سکتے ہیں۔
چند ماہ پہلے جب یہ اپوزیشن منظم دکھائی دے رہی تھی اُس وقت سب کا بیانیہ ایک تھا کہ آئین کو پامال کرنے والے سلیکٹر کو اپنی حدود میں رہنا ہوگا ہم ہر غیر آئینی اقدام کا راستہ روکیں گے، مگر پھر ایسا کیا ہوا کہ منظم اپوزیشن موتیوں کی طرح بکھیر گئی اور اس قوم نے ایک بار پھر ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو روایتی انداز میں ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے دیکھا، دونوں ہی نے ایک دوسرے پر سلیکٹر کے ساتھ گھٹ جوڑ کے الزامات عائد کیے، ن لیگ کے سینئر رہنمائوں سے یہ بھی سنا گیا کہ ن لیگ کی اسٹیبلشمنٹ سے سیٹنگ ہوگئی ہے اب یہ حقیقت ہے یا الزامات یا خان صاحب کو خوفزدہ کرنے کی کوشش، حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن غریب کے اُن مسائل کے حل کے لیے سڑکوں پر نہیں نکلی جو ماضی میں ان ہی کی جانب سے پیدا کیے گئے۔ یہ قوم سمجھنے سے قاصر ہے کہ ملک کی عدالتوں سے سزا یافتہ خاتون صبح شام عدالتوں اور ملکی سلامتی کے اداروں پر انتقامی تیر برسارہی ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی چند سینئر صحافی بھی اسلام آباد کی سڑکوں پر اداروں کو سنگین الزامات سے نواز رہے ہیں، کوئی قانون نہیں جو حرکت میں آئے اس لیے تو قوم میں یہ شکوک جنم لے رہے ہیں کہ دال میں کچھ کالا نہیں دال ہی کالی ہے۔ اپوزیشن کو اب یہ سوچ لینا چاہیے کہ اگر ان پر سنگین الزامات عائد کیے جارہے ہیں ان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو انصاف کے لیے عدالتوں سے رجوع کریں اگر اپوزیشن یہ سمجھتی ہے کہ فیصلے کہیں اور سے ہوتے ہیں تو پھر اپوزیشن کو چاہیے کہ حکومت کے ساتھ بیٹھ کر کوئی ایسا لائحہ عمل بنایا جائے جس سے جمہوریت مضبوط ہو اور فیصلے ٹھوس شواہدکی بنیاد پر کیے جائیں۔
دوسری جانب موجود حکومت یہ سمجھ لے کہ تین سال میں آپ نے مہنگائی کا وہ طوفان برپا کیا ہے جس نے لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کر دی ہے پاکستان کے معاشی حب سندھ اور خاص کر کراچی شہر کو محرومیوں کی جانب دھکیل دیا گیا ہے انصاف کرپشن کا خاتمہ سب دعوے دم توڑتے نظر آرہے ہیں وہ ہی ہو رہا ہے جو ماضی میں ہوتا رہا ہے سزا یافتہ آپ کی ناک کے نیچے بیرون ملک فرار سزا یافتہ ملک میں بیٹھ کر آپ کو للکار رہے ہیں آپ کے اپنے ہی لوگ آپ کے احتساب کو ماننے سے انکاری ہیں آپ کی جماعت پر کرپشن کے الزامات ہیں آپ کی جماعت دھڑوں میں تقسیم ہورہی ہے۔ محترم وزیر اعظم کہیں تو کچھ غلط ہورہا ہے جس کی وجہ سے آپ کمزور ہورہے ہیں اور ناکامی آپ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آپ فوری طور پر قوم کے بنیادی مسائل کی جانب توجہ فرمائیں براہ راست قوم کے مسائل سنے سے بہتر ہے کہ اپنے منتخب نمائندوں کو عوام کے گھروں کا راستہ دکھائیں کراچی شہر شہر پر توجہ فرمائے یہ بات یاد رکھی جائے کہ اگر انصاف کو دفن کر دیا جائے ظلم وزیادتی کو لگام نہ ڈالی جائے تو ہر عروج کو زوال بھی دیکھنا ہوگا۔