ایس او پیز کی دھجیاں

304

 

یہ خبر بھی ہر روز ٹی وی چینلوں، اخبارات اور سماجی ذرائع ابلاغ پر دیکھنے سننے کو مل جاتی ہے کہ عوام نے ایس او پیز کی دھجیاں اُڑا دیں۔ تصویریں بھی چیختی دھاڑتی یہی کہہ رہی ہوتی ہیں۔ عوام دکانوں پر امڈے پڑے ہیں۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کی لائن میں ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی لائن میں ہیں تو چینی لینے کے لیے لائن میں ہیں تو کہیں پانی کے لیے لائن میں لگے ہوئے ہیں۔ ہر تصویر یہی بتا رہی ہے کہ عوام نے ایس او پی کی دھجیاں اُڑا دیں۔بات ٹھیک بھی ہے، نظر بھی آرہا ہے کہ ایسا ہی ہورہا ہے، لیکن ایسا کیا ہورہا ہے اور کیوں ہورہا ہے اس کے لیے ایک کام کرنا پڑتا ہے اور وہ ہے تصویر کا دوسرا رخ… اسے بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ ایک تصویر ہے کہ لوگ چینی کا ایک دو کلو پیکٹ لینے کے لیے رش لگائے کھڑے ہیں اس کا دوسرا پہلو زیادہ ہولناک ہے۔ ایک زرعی ملک چینی برآمد کرنے والے ملک سے چینی گئی کہاں؟ اس کی اس قدر قلت کیوں ہوئی کہ لوگ ایک کلو چینی کے لیے لمبی لمبی لائنوں میں گھنٹوں کھڑے رہنے پر مجبور ہوگئے۔ معاملہ صرف یہی نہیں ہے کہ چینی قلت ہوگئی بلکہ معاملہ یہ بھی ہے کہ چینی کی قلت کے ذمے دار حکومتی صفوں میں بلکہ اگلی صفوں میں ہیں اور جب ان کے خلاف تحقیقات ہوئی تو 30 کا ٹولہ وزیراعظم سے مذاکرات کے لیے آتا ہے۔ ٹولے کا لیڈر چینی مافیا کا سربراہ مذاکرات کی کامیابی کا اعلان کرتا ہے اور دو دن بعد یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کو لاکھوں ٹن چینی کلو پر دس روپے اضافی رقم کے عوض فروخت کردیتا ہے۔ کیا حکمران بتاسکتے ہیں کہ چینی چوروں کے معاملے میں ایس او پیز کی دھجیاں کس نے اُڑائیں۔ چینی کی قلت کس نے پیدا کی۔ کیا یہ سارے کام عوام نے کیے؟ پھر چینی موجود ہونے کے باوجود درآمد بھی کرلی۔ درآمد برآمد کے منتروں میں پھر مافیا کی چاندنی ہوگئی۔ پڑوسی ملک میں دیوار چین پر دل جلوں نے تبصرہ کیا ہے کہ تو کیا ہوا اس نے دیوارِ چین بنائی۔ ہم نے دیوارِ چینی بنادی۔ اس کے ساتھ چینی کے لیے لائن میں کھڑے لوگوں کی تصویر تھی۔ تو یہ ہے دوسرا رخ ایس او پیز کی دھجیوں کا… مافیا کو جیل بھیجنے کے اعلان کا ایس او پی یہی تھا کہ تحقیقات کے نتیجے میں جو نام آئے تھے انہیں جیل بھیجا جاتا، لیکن حکومت نے خود ایس او پیز کی دھجیاں اڑُا دیں اور مافیا سے مذاکرات کامیاب کرلیے۔ چینی کے لیے لائن میں لگے لوگوں کی تصویر پر اخبارات نے کیپشن جمایا کہ عوام ایس او پی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لائن میں کھڑے ہیں۔
ایس او پیز کی دھجیاں اُڑانے کا دوسرا بڑا مظاہرہ بازاروں میں نظر آتا ہے جی تصویر تو یہی بتاتی ہے، لیکن ایسا کیوں ہے؟ دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیں۔ دکانیں معمول کے مطابق کھل رہی تھیں بازار کھلے ہوتے تھے اچانک جمعہ اور اتوار کو لاک ڈائون کردیا گیا۔ نتیجہ ہفتے کو رش لگ گیا۔ ایس او پیز کی دھجیاں اڑادی گئیں، لیکن وجہ عوام نہیں بلکہ حکومتی فیصلہ تھا۔ اسے تو دکانوں کے اوقات کار بڑھا دینے چاہیے تھے لیکن مزید کم کردیے گئے۔ پھر ہفتہ اتوار بند کردیا، پھر 8 دن کے لیے بند کردیا گیا۔ دنیا کاروبار کھول رہی ہے، اوقات کار بڑھا رہی ہے اور پاکستان میں کم کرنے اور بند کرنے پر زور ہے۔ لوگ کورونا سے تو کم مر رہے تھے بیروزگاری اور علاج نہ ہونے سے زیادہ مر رہے ہیں۔ اس کا ایس او پی کیا ہے۔ اپنے ملک کی معیشت کو تباہ کرکے عوام کو مرنے دو یا معیشت اور عوام دونوں کو بچایا جائے۔ لیکن اس کی ایس او پیز کی بھی دھجیاں حکومت نے خود اڑا کر رکھ دیں۔ بدنامی عوام کے حصے میں آئی۔ ایک نازک مسئلہ ہے لیکن ہے تو مسئلہ… اسپتال، بازار، مسجد، چینی کی لائن میں لوگ نظر آئیں تو ایس او پیز کی دھجیوں کی گردان ہر طرف سے ہوتی ہے لیکن بعض ایسے کام ہیں جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ایسے کام کرنے والوں کا معاملہ بھی مشتبہ ہے لیکن ان پر کوئی پابندی نہیں لگی۔ برائے نام پابندی لگی لیکن اس کی عملاً دھجیاں اڑا دی گئیں اور میڈیا خاموش، پولیس خاموش، تمام قانون نافذ کرنے والے خاموش ایس او پیز کے علمبردار اور محافظ خاموش۔ ہاں دکاندار نے دکان کے اندر داخل ہوکر بچے کچھے پیسے نکالنے کی کوشش کی تو اسے چوک پر لاکر بری طرح مارا پیٹا گیا پھر گاڑی میں ٹھونس کر ساتھ لے گئے۔ کسی نے مال فروخت کرنے کی نیت ہی سے دکان کھولنے کی کوشش کی تو اسے بھی مار پیٹ کر بند کردیا، حالانکہ حصول رزق حلال کی جدوجہد عین عبادت ہے اور جس چیز کو مذہب کے نام پر ایک طبقے نے منایا اس کو کسی طور بھی یہ درجہ حاصل نہیں لیکن ایس او پیز کی دھجیاں دکاندار اور نمازی اُڑا رہے ہیں۔
اب ذرا لاک ڈائون دیکھ لیں، سخت لاک ڈائون ہے، صبح سے دکانیں بند ہیں، آدھے شٹر کھلے ہیں، ان سے سامان مل رہا ہے۔ رات کو دکان کے اندر لائٹ کھلی ہے، باہر سے بند ہے، گاہک کھڑے ہیں، چائے خانے، پراٹھے، جوس سب مل رہے ہیں۔ پولیس کی گاڑی کا ایک چکر لگنے کی دیر ہے، سپاہی بازار میں اتر کر سب دکانداروں اور ٹھیلوں سے ایس او پیز کی دھجیاں جمع کرتا ہے، گشتی گاڑی میں بیٹھتا ہے اور ایس او پیز کی دھجیاں اڑاتا ہوا چلا جاتا ہے، اس گاڑی کے جاتے ہی لائٹیں کھل جاتی ہیں، چائے گرم، پراٹھے، برگر، پان، چھالیہ، سگریٹ وغیرہ حاضر۔ دوپہر میں کار سروس اسٹیشن بند ہے باہر کار کی سروس ہورہی ہے۔ اس کے برابر میں انجن آئل تبدیل ہورہا ہے، سامنے کار اے سی والے دکان کے باہر کھڑے اسکرو ڈرائیور ہاتھ میں لیے ایس او پیز کی دھجیاں اڑانے کو تیار ہیں۔ بیٹری والا دکان کے باہر بیٹھا ہے، آرڈر ملنے پر آپ کو چیز لاکر دے گا، حتیٰ کہ دوپٹا پیکو اور درزیوں کا کام بھی چل رہا ہے لیکن ان سب کو نوٹوں کی دھجیاں پولیس کو دینی ہوتی ہیں تاکہ ایس او پیز کی دھجیاں اڑائی جاسکیں۔ پھرشام 6 بجے بندش ہوگئی، مارکیٹیں بند، شاپنگ مال بند، بڑے اسٹورز بند، لیکن کھانے پینے پر رش کا عالم یہ ہے کہ بہادرآباد چورنگی پر شام کو اتنا رش نہیں ہوتا جتنا رات 12 بجے ہوتا ہے۔ وہاں اس وقت پولیس کی سرپرستی میں کھانے پینے کی دکانیں کھلی ہوتی ہیں۔ بہادرآباد سے شرف آباد چورنگی کا راستہ ایک دو منٹ ہے لیکن رات کو دس سے بارہ منٹ لگتے ہیں کیونکہ لوگ، گاڑیاں، پولیس کی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بے ہنگم طریقے سے کھڑی ہیں ایک کے کندھے کے اوپر سے دوسرے کا ہاتھ جارہا ہے پیسے دے رہے ہیں مال وصول کررہے ہیں ایس او پیز کی دھجیاں اڑانے کی نگرانی پولیس کررہی ہے۔ یہ حال پورے شہر اور ملک کا ہے صرف حوالے کے لیے نام دے دیے۔پورے ملک میں اس طرح ایس او پیز کی دھجیاں اڑائی جاری ہیں الزام عوام پر ہے حکومتی پالیسیاں ٹھیک۔