کرنسی ایکسچینج کا کاروبار
سوال: ایک صاحب کرنسی کے ایکسچینج کا کاروبار کرتے ہیں۔ اس سے انھیں فائدہ ہوتا ہے۔ کیا یہ کاروبار جائز ہے؟ اس کاروبار کے لیے انھوں نے کچھ رقم اپنے ایک ساتھی سے لے کر لگائی۔ اس کے عوض منافع کے طور پر وہ انھیں پندرہ سو روپے فی ہفتے ادا کرتے ہیں۔ کیا یہ منافع رقم دینے والے کے لیے لینا جائز ہے؟
جواب: مختلف ممالک کی کرنسیاں الگ الگ اجناس کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس لیے ان کا باہم تبادلہ کمی وبیشی کے ساتھ جائز ہے۔ اسلام فقہ اکیڈمی نئی دہلی کے ایک اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا:
’’دو ملکوں کی کرنسیاں دو اجناس ہیں، اس لیے ایک ملک کی کرنسی کا تبادلہ دوسرے ملک کی کرنسی سے کمی وبیشی کے ساتھ حسبِ رضائے فریقین جائز ہے‘‘۔ (نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے، طبع دہلی، 2011ء)
اسی طرح کرنسیوں کے ایکسچینج کا کاروبار بھی جائز ہے، البتہ اس کاروبار میں کسی سے کچھ رقم لے کر لگائی جائے اور اس کے منافع کے طور پر کوئی رقم متعین (Fixed) کرکے ادا کی جائے، یہ جائز نہیں ہے۔ اس کے بجائے رقم کی مناسبت سے فیصد طے کرلینا چاہیے اور پورے منافع پر اتنا فیصد ادا کرناچاہیے۔
زندگی میں جائداد کی تقسیم
سوال: ایک بزرگ گائوں میں رہتے ہیں، صاحبِ جائداد ہیں۔ ان کے تین لڑکے ہیں۔ تینوں کو انھوں نے تعلیم دلوائی۔ دو لڑکے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اچھی ملازمتوں سے لگ گئے اور گائو ں چھوڑ کر شہر میں رہنے لگے۔ دونوں نے اپنے بیوی بچوں کو بھی اپنے ساتھ رکھا۔ تیسرا لڑکا ابھی تعلیم کے مرحلے میں ہی تھا کہ موصوف کی طبیعت خراب رہنے لگی لہٰذا وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے شہر نہ جاسکا۔ اس نے خود کو والدین کی خدمت کے لیے وقف کردیا۔
اب وہ صاحب چاہتے ہیں کہ اپنی پوری جائداد اِس چھوٹے لڑکے کے نام کردیں۔ وہ ضرورت مند بھی ہے۔ کیا وہ شرعاً ایسا کرنے کے مجاز ہیں؟
جواب: کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی جائداد یا دیگر مملوکہ چیزیں اپنی اولاد میں تقسیم رنا چاہتا ہو تو عام حالات میں شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ وہ ان کے درمیان برابر برابر تقسیم کرے، یہاں تک کہ لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان بھی فرق نہیں کرنا چاہیے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ اگر وہ ان کے درمیان تفریق کرے گا، کسی کو کم اور کسی کو زیادہ دے گا تو اس کے معاملے میں اسی اعتبار سے ان لوگوں کا بھی رویہ بدل جائے گا۔ جس کو کم ملے گا اس کو شکایت ہوجائے گی اور وہ اس کے حقوق کے معاملے میں غفلت برتنے لگے گا۔
عہد نبوی میں ایک صحابی نے داد و دہش کے معاملے میں اپنے لڑکوں کے درمیان فرق کیا تو اللہ کے رسولؐ نے انھیں ایسا کرنے سے منع کیا اور اس کی یہی حکمت بیان کی۔ آپؐ نے فرمایا:
’’کیا تم کو اس بات سے خوشی ہوگی کہ تمھارے تمام لڑکے یکساں طور پر تمھارے ساتھ حسن ِ سلوک کریں‘‘۔ (مسلم)
یہ معاملے کا اخلاقی پہلو ہے۔ قانونی اعتبار سے آدمی اپنے مال کا مالک ہے۔ وہ اپنی زندگی میں اس میں سے جتنا بھی کسی کو دینا چاہے، دے سکتا ہے۔ وہ چاہے اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو دے، چاہے اپنے رشتے داروں کو دے، چاہے صدقہ وخیرات کرے، چاہے رفاہی کاموں کے لیے وقف کردے۔
مذکورہ معاملے میں بہتر صورت یہ ہے کہ آدمی اپنے تمام لڑکوں کو اعتماد میں لے۔ اس کا ایک لڑکا معاشی اعتبار سے کمزور اور ضرورت مند ہے، جب کہ دیگر لڑکے اعلیٰ تعلیم یافتہ، اچھی ملازمتوں سے وابستہ اور معاشی اعتبار سے مضبوط ہیں۔ اس صورت میں اگر وہ اپنے دیگر لڑکوں کو اعتماد میں لے کر اپنی پوری جائداد معاشی اعتبار سے کمزور لڑکے کے نام منتقل کردے گا تو انھیں کوئی شکایت نہ ہوگی اور وہ بخوشی اس پر تیار ہوجائیں گے۔