میں، میں اور صِرف میں

476

غزہ (فلسطین) کے معصوم بچوں کے خدّ و خال پر ایک بار پھر خون کا غازہ مَل دیا گیا ہے۔ اتنی وحشیانہ بمباری ہوئی ہے کہ مشرق و مغرب کی بیحِس روحیں بھی تڑپ اْٹھی ہیں۔ مسلم معاشروں میں ردِ عمل کا ہونا اگرچہ بہت فطری تھا، مگر وہ محض جذباتی اور خود ملامتی ہی رہا۔ بس یہی زیرِ بحث رہا کہ:
• 57 مسلمان ملکوں کی فوجیں کہاں ہیں اور وہ فلسطینیوں کی مدد کو کیوں نہیں پہنچیں؟
• یہ ایٹم بم آخر کس کام آئے گا؟ اگر یہ مسلمانوں کی حفاظت بھی نہیں کر سکتا۔
• مالدار عرب مْلک امریکا اور یورپ کا معاشی بائیکاٹ کیوں نہیں کرتے؟ تاکہ انہیں اپنی معاشی طاقت سے جھْکا سکیں۔
• ڈیڑھ ارب مسلمان بے غیرت کیوں ہو گئے ہیں؟ ہمارے حْکمران اتنے ذلیل و خوار کیوں ہیں؟
ہماری ساری اْنگلیاں اکثر دوسروں کی طرف اْٹھتی ہیں، اپنی طرف مگر کبھی کم ہی کوئی انگلی اْٹھتی نظر آئے گی۔
آج مگر مجھے دوسروں کی نہیں، اپنی غیرت و حمیت کا اندازہ لگانا ہے۔
• میں کہ تیل کی دولت سے مالا مال کسی مْلک کا بادشاہ نہیں جو امریکا و اسرائیل کا تجارتی بائیکاٹ کر سکوں۔
• میں کہ کسی طاقتور ملک کا فوجی سربراہ بھی نہیں کہ فلسطین میں فوجیں اْتار کر دشمن کو بھاگنے پر مجبور کر سکوں۔
• میں کہ کسی جمہوری ملک کا وزیر اعظم بھی نہیں کہ اسلامک سمٹ بلا کر ڈپلومیسی سے دشمن کو زِیر کر پاؤں۔
میں کہ ایک تنہا روح مگر مسلم معاشرے کا با حوصلہ، بیدار اور دھڑکتا دِل ہوں، خاموش اور بے حمیت کیسے رہ سکتا ہوں؟
• میں، میں اور میں مِل کر غزہ کے معصوم بچوں کے تباہ شدہ اسکول کی دیواریں اور چھت تو دوبارہ کھڑی کر سکتا ہوں۔
• میں، میں اور میں سے مل کر ملبے تلے دبے، زخموں سے چْور لوگوں کو اسپتال پہنچانے کے لیے ایک ایمبولنس تو فراہم کر سکتا ہوں۔
• میں، میں اور میں مل کر ایک اْجڑے گھر کو چھت اور چار دیواری کی تعمیر کا مٹیریل تو فراہم کر سکتا ہوں۔
• اور میں، میں اور میں مل کر غزہ کے یتیم چند بچوں کی کفالت کی ذمے داری تو لے سکتا ہوں۔
میں، میرے بھائی اور بہنیں یہ بات ٹھیک طرح سمجھ لیں کہ میرے جذباتی ہونے اور ماتم کرنے سے کچھ بھی نہیں بدل سکتا۔ میں جو اور جتنا کچھ ہوں اور جو کر سکتا ہوں، مجھے آج ہی اس کا آغاز کر دینا چاہیے۔ میرا رب میرے ارادوں اور میرے وسائل کو جانتا بھی ہے اور اْنہیں دیکھ بھی رہا ہے۔ وہ مجھ سے فقط انہی وسائل اور صلاحیتوں کا حساب لے گا۔
اور ہاں
الخدمت کے بیدار مغز اور جفا کش رضاکار میری کال کے ہمہ وقت منتظر ہیں تاکہ میری محبتوں کے پارسل پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کی مْہر کے ساتھ غزہ کے بہن؍ بھائیوں تک جلد سے جلد پہنچا سکیں۔ آج مجھے دوسروں کی نہیں صرف اور صرف اپنی غیرت کا اندازہ لگانا ہے۔
پھر غزہ کے خال و خد پہ خون کا غازہ لگا
اور ‘‘میں’’ چْپ ہوں؟ مری غیرت کا اندازہ لگا