اسلام آباد(آن لائن)عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اپنوں کے مقدمات اینٹی کرپشن‘ مخالفین کو نیب میں پھنسایا جاتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے آمدن سے زاید اثاثہ جات کیس میں گرفتار رہنما پیپلز پارٹی خورشید شاہ کی ضمانت سے متعلق دائر درخواست پر سماعت(آج)جمعرات تک ملتوی کر دی۔جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت عظمیٰ نے خورشید شاہ کی دونوں بیگمات اور بیٹے فرخ شاہ کو (آج)جمعرات کو طلب کر لیا ہے۔عدالت عظمیٰ نے سندھ کے وزیر ٹرانسپورٹ اویس قادر شاہ سمیت دیگر تمام ملزمان کو پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا کہ جن ملزمان کو ضمانت منسوخی کے نوٹس جاری ہوئے ہیںوہ سب(آج)جمعرات کو عدالت میںحاضر ہوں۔خورشید شاہ کے وکیل مخدوم علی خان اپنے دلائل(آج)جمعرات کوبھی جاری رکھیں گے۔دوران سماعت خورشید شاہ کے وکیل نے موقف اپنایا کہ میرے موکل خورشید شاہ کے خلاف پہلے بھی انکوائری ہوئی،کچھ نہیں نکلا ،خورشید شاہ پر کہیں بھی اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام نہیں ،رواںبرس ستمبرمیں خورشید شاہ کی گرفتاری کو 2برس مکمل ہو جائیں گے،دوبارہ انکوائری کے لیے نیب کو عدالت سے اجازت لینا چاہیے تھی۔اس دوران جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ بدقسمتی سے حکومتوں کے بدلنے سے نیب کے رویے میں بھی جھکائو آتا ہے ،بہت سے مقدمات میں نیب نے اپیلیں تک دائر کرنے سے انکار کردیا ، عام پٹواریوں کے مقدمات میں نیب اپیل کیے بغیر رکتا نہیں،آج بھی اپنوں کے مقدمات اینٹی کرپشن کو دیے جاتے پیں،جو مخالف ہوتا ہے اس کو نیب میں پھنسا دیا جاتا ہے،نیب کی غیر جانبداری تو آپ اور ہم سب جانتے ہیں،نیب مقدمات میں ضمانت صرف ہارڈ شپ اصولوں پر ہی ہو سکتی ہے۔اس دوران خورشید شاہ کے وکیل مخدوم علی خان نے موقف اپنایا کہ نیب نے اثاثوں کی قیمت کے تعین کا طریقہ کار نہیں بتایا۔جس پر جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ ضمانت کی درخواست میں ہم تفصیل لکھ دیں گے تو ٹرائل کیسے ہو گا،حقائق سامنے آنے پر ٹرائل کورٹ خود بھی چارج فریم کرسکتی ہے۔ اس دوران خورشیدشاہ کے وکیل نے موقف اپنایا کہ نیب نے میرے موکل کی انکم اور اخراجات کے درمیان جو فرق ظاہر کیا اس کے بیچ میں خلا ہے، پلاٹس کی خرید و فروخت اور معاملات قانونی طریقہ کار سے ہوئے ، نیب نے خورشید شاہ کے اثاثوں کی مالیت کئی گنا بڑھا کر پیش کی۔ جس پر جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ جن پلاٹس کا ذکر کیا گیا ہے وہ 1980ء سے 2011ء تک اسکول کی زمین کے طور پر مختص تھے،2011 ء میں اسکول کی زمین کو رہائشی پلاٹس میں تبدیل کیا اور آپ نے 2012ء میں پلاٹس خریدلیے،کیا آپ نے ہائیکورٹ میں ہارڈشپ کی بنیاد پر ضمانت کی درخواست دائر کی ؟ عدالتی استفسار پر وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ ہائیکورٹ میں ہارڈ شپ کی بنیاد پر کوئی اپیل نہیں کی ۔جس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ ہارڈشپ کی بنیاد پر ضمانت کے لیے پہلے ہائی کورٹ سے رجوع کرنا ہو گا۔ اس دوران خورشید کے بیٹے فرخ شاہ اور خورشید شاہ کے اہلخانہ کے وکیل فاروق ایچ نائیک کی عدالت میں عدم حاضری پرناراضی کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ اگر نوٹس کے باوجود فاروق ایچ نائیک عدالت نہیں آتے تب بھی ہم کیس کو چلائیں گے،جب ضمانتی عدالت میں پیش نہیں ہوتے تو نیب نے ٹرائل کورٹ میں ابھی تک 514 کی درخواست دائرکیوں نہیں کی ؟دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ کیس میں کل 144 گواہ ہیں جن میں سے 7 گواہان کے بیانات قلمبند ہو چکے ہیں،7 میں سے5 پر جرح بھی مکمل ہوچکی ہے۔