اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) شہبازشریف ، حمزہ شریف کی رہائی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کا نتیجہ نہیں‘ نیب کی کمزوری ہے‘ نواز شریف سے کوئی بات نہیں ہو رہی‘ اپوزیشن کو عدالتوں سے ریلیف مل رہا ہے‘ حکومت اپنے بوجھ سے ہی دبی جارہی ہے‘مخالفین کو نشانہ بنا رہی ہے‘مہنگائی سے عوام کا برا حال ہے ‘ انتخابی اصلاحات پر بات چیت کو ن لیگ اور جے یو آئی نے مسترد کردیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار مسلم لیگ (ضیا الحق) کے صدر محمد اعجاز الحق، عدالت عظمیٰ کے سینئر وکیل سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق جوائنٹ سیکرٹری چودھری محمد اکرام ، تحریک انصاف کے سینیٹر اور سینیٹ میں قائد ایوان ڈاکٹر وسیم شہزاد ،جے یو آئی کے پارلیمانی لیڈر مولانا اسعد محمود اوروفاقی وزیر حماد اظہر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی ضمانت پر رہائی شریفوں کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کا نتیجہ ہے؟ محمد اعجاز الحق نے کہا کہ حکومت 3 سال گزار چکی ہے اور ابھی تک عوام کے مسائل کا حل پیش نہیں کرسکی‘ ملک میں مہنگائی ایک بڑا ایشو ہے لیکن ملک میں امن وامان سمیت کچھ معاملات ایسے بھی ہیں جہاں حکومت کہیں نظر نہیں آرہی‘ ملک میں اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپنا نکتہ نظر بیان کر رہی ہیں لیکن حکومت کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں ہے یہ حکومت اپنے بوجھ سے ہی دبی جا رہی ہے‘ ایک ایسے ماحول میں اگر حمزہ اور شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی ہوتی ہے تو اسے کسی ڈیل کا نتیجہ قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ عدلیہ نے ضمانت کی درخواستوں پر فیصلہ کرتے ہوئے نیب سے اس کا موقف معلوم کیا ہے اور ہائی کورٹ نے ضمانت کا فیصلہ دیتے ہوئے جو حکم جاری کیا ہے اگر اس کی زبان پڑھ لی جائے تو پراسیکیوشن کی کمزوری واضح ہو جاتی ہے‘ ہر کام اسٹیبلشمنٹ پر ڈالنے کی عادت اور رویہ درست نہیں ہوتا‘حقائق کو حقائق کی طرح ہی دیکھنا چاہیے۔ چودھری محمد اکرام نے کہا کہ ہمیں یہ دیکھ لینا چاہیے کہ کیا حمزہ اور شہباز شریف کی اس قدر اہمیت بن گئی ہے کہ انہیں رہا کرنا پڑا یا ان کی رہائی میں مدد دینا پڑی؟ انہوں نے کہا کہ دونوں کی رہائی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کا نتیجہ نہیں ہے‘ آج کی تاریخ تک نواز شریف سے کوئی بات نہیں ہو رہی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جب بھی بات ہوگی تو نواز شریف کے ساتھ ہی ہوگی‘ حمزہ اور شہباز کی ڈیل کے نتیجے میں رہائی کی بات وہ کرتے ہیں جن کی نظر سیاست اور سیاسی ماحول پر نہیں ہے‘ دونوں کی رہائی پراسیکیوشن کی کمزوری کے باعث ہوئی ہے یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ نیب نے خاموشی اختیار کرکے ان کی رہائی میں مدد دی ہے۔ ڈاکٹر وسیم شہزاد نے کہا کہ حکومت احتساب سے متعلق اپنا وعدہ پورا کرے گی اور ہم چاہتے ہیں ملک میں غیر جانبدارانہ احتساب ہو اس کا عمل جاری رہے۔ مولانا اسعد محمود نے کہا کہ اپوزیشن کو عدالتوں سے ریلیف ملنا ایک قانونی پہلو ہے اسے کسی خاص نظر سے دیکھنا درست نہیں ہے‘ ملک کی معاشی و اقتصادی صورتحال تشویشناک حد تک خراب ہو چکی ہے‘ حکومت احتساب کے نام پر اپوزیشن کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے لیکن اپوزیشن حکومت کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے‘ حکومت کے اپنے ادارے بتا رہے ہیں کہ ملک میں مہنگائی ہے حتیٰ کہ دودھ، دہی، چاول، چکن، پیاز، انڈے، چینی اور آٹے سمیت 25 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے‘ کھانے پینے کی اشیا کی درآمدات57.31 فیصد بڑھ گئی ہیں‘ وفاقی کابینہ نے سرکولیشن کے ذریعے بجلی مہنگی کرنے سے متعلق سمری کی منظوری دے دی ہے۔ وفاقی وزیر حماد اظہر نے کہا کہ وہ شریفوں اور اسٹیبلشمنٹ کی ڈیل کے سوال پر بات نہیں کریں گے تاہم یہ ضرور کہوں گا کہ وزیراعظم عمران خان کی انتخابی اصلاحات پر بات چیت کی پیشکش کو مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی نے مسترد کردیا ہے‘ وزیراعظم عمران خان چاہتے ہیں کہ اصلاحات ہوں دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی توجہ دینی چاہیے‘ انتخابی اصلاحات میں اہم ترین کردار الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا بھی ہوسکتا ہے‘ بات چیت کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ گفت و شنید ہوگی تو خیر کے کئی پہلو نکل آئیں گے۔