انا کا بت‬

836

آج صبح پھر سحر کی آنکھ دیر سے کھلی۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھی اور گھڑی پر نظر ڈالی۔ رات کو نیند کی زائد گولیاں لینے کی وجہ سے اس کا سر بھاری ہو رہا تھا۔
“صرف پندرہ منٹ ہیں،” خود سے بڑبڑاتے، کنپٹیوں کو ہاتھ سے دباتے ہوئے اس نے واش روم کا رخ کیا۔
آفس پہنچنے تک بھی اس کا ذہن سن تھا۔ احمد چاچا سے چائے کا کہتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں آئی۔ چائے پی کر اس کے کچھ حواس بحال ہوئے تو کام شروع کرنے کے لیے فائل کھولی۔ اس نے تاریخ پر نظر ڈالی۔ اس کے سر میں پھر ایک ٹیس اٹھی۔ چار ماہ۔ پورے چار مہینے ہو چکے تھے۔ اس نے فائل بند کر دی۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی کھڑکی کے پاس جا کھڑی ہوئی۔ گو نگاہیں باہر جمی تھیں، پر ذہن کہیں دور بھٹک چکا تھا۔
“تم واقعی میری زندگی میں سحر بن کر آئی ہو” رمیز کے اس جملے نے سحر کے دل میں محبت کا جو تخم بویا تھا وہ ایک پودے سے نمو پا کر کبھی تن آ ور درخت نہ بن سکا۔ حد درجہ جذباتی سحر شاید ایسے ہی جملوں کے “سحر” میں کھوئے رہنا چاہتی تھی پر رمیز کی بےانتہا مصروفیت اور لاپرواہ شخصیت کی بنا پر اس کے خواب ادھورے ہی رہے۔سحر ان عورتوں میں سے تھی جو ہمدردیاں سمیٹ کر دلی تسکین حاصل کرتی ہیں۔ عدم برداشت اور چھوٹی، چھوٹی باتوں کو انا کا مسئلہ بنانے کی عادت نے خود سحر کے لیے مسائل کھڑے کر ديئے تھے۔ اکلوتے ہونے کے ناطے جو ناز سحر نے میکہ میں اٹھائے تھے،وہ رمیز اور اپنے سسرال والوں سے اسی کی طلب گار رہی۔ طلب پوری نہ ہونے پر انہیں سے خائف رہنے لگی۔رمیز نے کبھی اس کی اصلاح کرنا چاہی بھی تو سحر کبھی اس کی باتوں کو خاطر میں نہ لائى۔ اس نے ہمیشہ ان لوگوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا۔ دو بچوں کی پیدائش بھی دونوں کو ایک دوسرے کے قریب نہ لا سکی۔رمیز نے بھی اس کے رویئے کو دیکھ کر خاموشی اختیار کر لی۔ سحر کوبھی یہ شکایت رہی کہ رمیز اگر اس کے زخموں پر مرہم لگا دیتا تو وہ ناسور نہ بنتے۔جو دراڑ غیر محسوس طریقے سے دونوں کے بیچ پڑگئی تھی۔
سحر نے سر جھٹکا اور اپنی سوچوں سے باہر آگئى۔ اس نے فائل کھولی اور دوبارہ کام کرنا چاہا۔ اسے پھر خیال آیا کہ آج پورے چار ماہ ہو چکے تھے، ایک معمولی بات کا بتنگڑ بنا کر اسے اپنا گھر چھوڑے ہوئے۔ اسے وہ دن یاد تھا جب رمیز سے جھگڑنے کے بعد، کچھ ضروری سامان پیک کر کے اس نے دونوں بچوں کا ہاتھ پکڑا اور گاڑی میں جا بیٹھی تھی۔
رمیز نے اسے روکنا چاہا پر ہمیشہ کی طرح اس دن بھی سحر نے اس کی باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دی۔
“پپا پپا،” علی بھاگ کر باپ سے جا لپٹا تھا اور اس کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا تھا۔
رمیز نے اس سے کال پر بات کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار وہ بس علی سے بات کروا کے فون بند کر دیتی۔
اور جب رمیز نے اس سے ملنا چاہا تو اس کا رویہ کیسا تھا؟ اس نے دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپاتے ہوئے سوچا، جانے کس منہ سے وہ رمیز کا سامنا کر سکے گی۔
“میڈم،رمیز بیگ صاحب آ پ سے ملنا چاہتے ہیں”، احمد چاچا نے وزیٹنگ کارڈ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
“آ پ ان سے جا کے کہہ دیں کہ میڈم بہت مصروف ہیں، ان کے پاس وقت “ضائع”کرنے کے لیے ایک لمحہ بھی نہیں”۔اس نے لفظ ضائع پر زور دیتے ہوئے بغیر سر اٹھانے جواب دیا تھا۔
“کیوں کیا میں نے یہ سب کچھ؟”وہ پشیمان تھی۔
“مما ہم گھر کب جائیں گے؟”عینا کےہر روز دہرائے جانے والا یہ سوال اس کو اور مضطرب کر دیتا۔
اس کی انا نے اس کے بسے بسائے گھر کو اجاڑ کے رکھ دیا تھا۔ اسے اپنی غلطیوں کا احساس ہونے لگا تھا۔
“کیا کمی تھی رمیز میں؟”دور رہ کر اس کو اس کی ان خوبیوں کا ادراک ہوا جنھیں اس کی آ نکھوں میں بندھی انا کی پٹی دیکھنے ہی نہیں دیا۔اگر رمیز کی شخصیت میں کچھ جھول تھے تو اس میں کون سے سرخاب کے پر لگے تھے ۔ ایک خاندان سے الگ ہو کر اس کی کیا حیثیت تھی؟وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگی تھی۔ اس کے پھول سے معصوم بچے آخر کس جرم کی سزا کاٹ رہے تھے۔ وہ کیوں اس کی انا کے بھینٹ چڑھ رہے تھے۔ رمیز کی جن خامیوں کو وہ اس کی ماں کی ناقص تربیت گردانتی تھی،وہ خود بھی تو ایک ماں تھی۔اس نے اپنی اولاد کو محبت، تحمل و برداشت اور انکساری کا کیا سبق دیا تھا؟
سحر واقعی بہت نادم تھی۔ اس نے موبائل اٹھایا اور رمیز کے نمبر پر ہاتھ رکھا، لیکن پھر کچھ سوچ کر رک گئی۔
آخر اس نے ایک اہم فیصلہ کر ہی لیا۔ گھر واپس لوٹ جانے کا! اس نے چابی اٹھائ، گاڑی سٹارٹ کی اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئ۔ اس نے گھنٹی بجانے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ گیٹ کی چابی آج بھی اس کے پرس میں موجود تھی۔گیٹ کھول کر وہ اندر داخل ہوئی ۔
“کوئ مہمان آئے ہوئے ہیں،” مرکزی درواذہ کھولتے ہوئے وہ تھوڑی سی ٹھٹکی۔ اس نے دروازے پر ہلکا سا دباؤ ڈالا
“جی مجھے قبول ہے،” رمیز کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائى۔ پاس بیٹھے مولوی صاحب نے با آواز بلند “مبارک ہو” کہا۔ جس کے بعد باری باری سب رمیز سے گلے مل کر اس کو مبارکباد دینے لگے۔
سحر کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا اور وہ گرتی چلی گئی!!