افراطِ زر کو معاشی ماہرین بدترین صورت حال قرار دیتے ہیں کیونکہ افراطِ زر میں ایک تو پیداوار بڑھتی نہیں، دوسرا لوگوں کو زائد قیمتوں کی وجہ سے اضافی ٹیکس دینا پڑ جاتا ہے۔ شوکت ترین کہتے ہیں کہ ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب 10 فی صد ہے جو بہت کم ہے۔ حکومت بلند بانگ دعوے اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مجموعی معاشی سرگرمیوں میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوسکا ہے۔ کورونا کے ساتھ ساتھ اس صورت حال کی ایک وجہ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہے جس کے باعث عالمی منڈی میں ہماری اشیا کی مسابقت کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ روز افزوں مہنگائی آج ہمارے ملک کے سنگین ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ لوگوں کے گھریلو بجٹ کا سارا تخمینہ فیل ہوتا جارہا ہے، لیکن مہنگائی میں اضافے کی وجہ صرف افراطِ زر ہی نہیں ہے بلکہ اشیاء و خدمات کی رسد کا نہ بڑھنا، لوگوں کو زیادہ سے زیادہ چیزوں کو حاصل کرنے کی علت اور ٹیکسوں کا بے جا بڑھنا بھی ذمے دار ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کا سکھ چین غارت کیا ہوا ہے، ہر اگلے روز اشیاء کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ آٹا، دال، چاول، گھی، تیل، گوشت، سبزی غرض روزمرہ استعمال کی کوئی چیز بھی اب عوام کی دسترس میں نہیں ہے۔ آج جتنے پیسے گھر آتے ہیں اس حساب سے سوچنا پڑتا ہے۔ پہلے ہزار پانچ سو روپے کی بڑی وقعت ہوتی تھی اب وہی ہزار پانچ سو کا نوٹ ایسے خرچ ہوجاتا ہے کہ پتا بھی نہیں چلتا۔ غریب طبقہ تو اس سے پریشان ہے ہی، متوسط طبقہ بھی بری طرح متاثر ہے۔ اور حد تو یہ ہے کہ اب کھاتے پیتے گھرانوں میں بھی مہنگائی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ اجناس اور خدمات کی قیمت بڑھتے ہی کرنسی نوٹ کی قوتِ خرید کم ہوتی جاتی ہے جو بالآخر معاشی نمو میں سستی کا باعث بنتی ہے۔
پی ٹی آئی کے معاشی منشور کا جائزہ لیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے قوم سے معاشی ترقی کا کوئی وعدہ کیا ہی نہیں گیا تھا۔ اسی تناظر میں بعض ناقد ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کی عوام اور ملک کے حوالے سے کوئی ترجیح ہی نہیں ہے۔ یہ عوامی فلاح، صنعتوں کی بہتری، زرعی پیداواری صلاحیت اور اہم معاشی امور کے حوالے سے کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتی اور نہ اپنے لیے کوئی ترجیح ہی متعین کرنا چاہتی ہے جبکہ شوکت ترین کے مطابق گزشتہ اڑھائی سال کی پالیسیوں نے لاکھوں لوگوں کو بیروزگار کیا ہے جبکہ منفی شرحِ نمو سے ایک سال میں مارکیٹ میں آنے والے 45 لاکھ افراد کو روزگار نہیں ملا ہے۔ اگر معیشت کو چلانا ہے تو جی ڈی پی میں کم از کم 2 فی صد اضافہ کرنا ہوگا۔
سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کی اقتصادی پالیسی کو درست کرنا ہے تو عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کے خلاف ہمیں جانا پڑے گا۔ اس کے لیے ہمیں اپنی صنعتوں کو بہتر بنانا ہوگا، اس کے علاوہ نج کاری اور نیو لبرل ایجنڈے کو مسترد کرنا ہوگا اور ملک کو معاشی طور پر خود کفیل بنانا پڑے گا کہ پھر ہمیں ان اداروں کا دست نگر نہ ہونا پڑے۔ سادہ سا سوال ہے کہ یہ سب کیسے ممکن ہے؟ اس سوال کے جواب تلاش کرنے کے لیے حکومت کو اپنی معاشی پالیسی کے اہداف کا واضح تعین کرنا پڑے گا۔
لیکن تلخ زمینی حقائق یہ ہیں کہ وفاقی کابینہ کی تعداد 51 ہوگئی۔ ایک درجن سے زائد غیرمنتخب شخصیات امریکن، برٹش نیشنل بھی شامل ہیں۔ مجموعی طور پر قومی اسمبلی کی کل 342 ایم این اے، جس میں تقریباً 50 فی صد اپوزیشن ارکان ہیں۔ باقی حکومتی 171 میں 51 وزرا، جس کا مطلب کہ ہر تیسرا رکن وزیر ہے۔ کیا کمال سادگی ہے اور کیا کمال وزارتیں۔ رولرز نے پاکستانیوں کو رلا دیا ہے بلکہ رول کرکے رولر پھیر دیا ہے۔ مزے لو تبدیلی کے۔ اب یہی کچھ تو کہنے کا رہ گیا ہے۔ پی آئی اے خسارہ، ریلوے خسارہ، اسٹیل مل بند، بے روزگاری عروج پر، مہنگائی عروج پر بلکہ آسمان کو چھو رہی ہے تو وزرا صرف بھینسوں سے دودھ حاصل کرنے پر مامور ہیں۔ اور یہ بھی بتادوں کہ حکومت میں شامل غیرمنتخب افراد تقریباً سارے دیگر بیرون ممالک کی شہریت رکھتے ہیں اور حکومت دراصل یہی لوگ چلارہے ہیں! باقی سارے چرس، بھنگ پینے والے نمونوں کو بٹھایا ہوا ہے اور یہ چرسی، بھنگی یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت ہم چلا رہے ہیں! حالانکہ ان کو استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ سب غریب اور سفید پوش لوگ ہیں، انہیں بھی تجوریاں بھرنے کا موقع ضرور ملنا چاہیے تاکہ ان کی نسلیں بیرونِ ملک عیاشیاں کرسکیں۔
نیازی حکومت نے غریب پاکستانی اور پاکستان کی معیشت دونوں کا کچومر نکال دیا۔ وہ فراڈیہ شخص کب کا مرگیا جو بول رہا تھا اگر ہمیں حکومت ملی تو کابینہ 17 سے زیادہ نہیں ہوگی۔ میرے کپتان! آپ کی کس بات پر یقین کرنا ہے۔ کوئی چیز ہے جس پہ تھوکنے کے بعد آپ نے چاٹا نہ ہو؟؟ تاریخ میں آپ کا نام درج کروانے کے لیے کوئی نیا خانہ بنانا پڑے گا۔